]]>
تاریخ کشتواڑ
خلاصۂ تاریخِ کشتواڑ
(ایک تقابلی مطالعہ)
مُرتبہ عشرتؔ کاشمری
تصحیح وتوسیع فداؔ کشتواڑی
بار دوئم
تعداد پانچ صد
قیمت ۲۰۰ روپے
ناشر
تقسیم کار: سپرا ۵۰۰ ۱۔اجیت نیوز ای نزد، سپرا ۵۰۰ ڈی۔سی۔ آفس کشتواڑ۔ ۱۸۲۲۰۴
۲۔شمع نیوز ای کشتواڑ۔۱۸۲۲۰۴۔نزد ڈسٹرکٹ ہسپتال کشتواڑ
اس کتاب کی طباعت کیلئے جموں وکشمـیر اکیڈیمـی آف آرٹ ، کلچر اینڈ لینگویجز سے مالی امداد حاصل کی گئی ہے ۔اس کتاب مـیں ظاہر کی گئی آراء سے کلچرل اکیڈیمـی کابالواسطہ یـا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اس ضمن مـیں کلچرل اکیڈیمـی پر کوئی ذمہ داری عاید ہوگی۔
(ایک ضروری نوٹ)
تاریخِ کشتواڑ کا پہلا ایڈیشن سال ۱۹۷۳ ء مـیں اشاعت پذیر ہوا ہے ،اب تقریباً ستائیس (۲۷) سال کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آرہاہے ۔ ستائیس(۲۷) سال کے طویل عرصے مـیں یہاں تاریخی اور جغرافیـائی تبدیلیـاں وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔اس لئے اس کی تصحیح اور توسیع کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ جو اس اشاعت مـیں شامل کی گئی ہیں ، یہ کام ناممکن تھا اگرمجھے عشرت کاشمـیری کے خاندان اور ان کے پسران نیک بخت کا تعاون حاصل نہ ہوتا جن کا خاندانی شجرہ نسب مـیں ذکر کیـاجاچکاہے۔
(فدا کشتواڑی)
تعارف
نام: غلام مصطفےٰ والد :عبدالمجید
قلمـی نام: عشرتؔ کاشمـیری تاریخ ولادت: ۱۲مئی ۱۹۱۶
وفات:۲۴؍اپریل۱۹۷۸( بمقام جموں حرکت قلب بند ہوجانے سے)
تعلیم:ایف ۔اے(ادیب فاضل) آبائی وطن: کاس گنج ( یو۔ پی)
پیشہ:ملازمت ادبی زندگی کاآغاز:زمانہ طالب علمـی سے
غلام مصطفےٰ عشرتؔ کاشمـیری کی ولادت کاس گنج اُتر پردیش مـیں ہوئی ۔ عشرتؔ کاشمـیری کے چچا عبداﷲ جُو شیخ جو کشمـیر سے کاروبار کے سلسلہ مـیں کشتواڑ آئے تھے ۔ان کا کاروبار یہاں خوب چلانکلا۔ انہوں نے یہاں ہی شادی کرکے ساختیـار کرلی ۔ عبداﷲ جو شیخ جن کی کوئی اپنی اولاد نہیں تھی، اپنے بڑے بھائی عبدالمجید جو عالم شباب مـیں ہی اترپردیش بمقام کاش گنج چلے گئے تھے اوری مسجد مـیں امامت کے فرائض انجان دیتے تھے ۔اُن کے ہاں عشرتؔ کاشمـیری پیدا ہوئے اور جب وہ سات آٹھ سال کو پہنچے تو اُسے عبدالمجید سے مانگ لیـا ۔
ملازمت:۱۹۴۷ ء سے ۱۹۵۰ ء بحیثیت مدرس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ۱۹۵۶ ء مـیں محکمہ دیہات سدھار مـیں بحیثیت بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر تعلینات ہوئے ۔۱۹۴۰ ء مـیں جموں سے جاری ہونے والے ماہنامہ دیہات سُدھار کے مدیر بنے ، اس کے بعد ۱۹۶۷ء مـیں ملازمت سے سبکدوش ہوکر ریـاستی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ ۱۹۷۱ ء سے لیکر ۱۹۷۸ ء تک کانگریس کمـیٹی کے آفیشل آرگن ’’قومـی آواز جموں‘‘ اور اخبار’’سچ‘‘ کی ادارت سے وابستہ ہوگئے۔
تصنیفات: تاریخ کشتواڑ ایک تقابلی مطالعہ اس کے علاوہ ملک کے دیگر اخبارات و جرائد مـیں آپ کے کئی تحقیقی مقالات اور آپ کا شعری کلام چھپتا رہا۔
طبع آزمائی:غزل، نظم ،رباعی، قطعات ،نعت گوئی ،افسانہ نگاری، نیز تحقیقی مقالات
فدا ؔ کشتواڑی
_________فدا ؔ کشتواڑی
’’تاریخ کشتواڑ‘‘ عشرتؔ کاشمـیری کا وہ کارنامہ ہے جسے رہتی دُنیـا تک یـاد رکھاجائے گا ۔تاریخ کشتواڑ عشرتؔ صاحب کی عمر بھر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس پر وہ عمر بھر کام کرتے رہے بہت سی اُردو انگریزی تاریخی کتابوں کو پڑھابلکہ کھنگالا تب جاکر تاریخ کشتواڑ مرتب ہوسکی ۔ اگرچہ یہاں نجم الدین کی تاریخ کشتواڑ اور گلشن اسرار جیسی کتابیں بھی پہلے سے موجود تھیں جو تضادات اور اغلاط سے بھری ہوئی تھیں ۔ لیکن عشرتؔ کاشمـیری کی تاریخ کشتواڑ(ایک تقابلی مقابلہ) کی بات ہی کچھ اور ہے ۔جو اول که تا آخر تاریخی واقعات اور حالات سے بھری ہوئی ہے ۔ جس مـیں کشتواڑ سے متعلق تمام قسم کی تواریخی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔تاریخ جو ایک مسلسل عمل ہے ۔اس موضوع پر لکھنا ہر ایرے گیرے کا کام نہیں ہے لیکن عشرتؔ کاشمـیری نے اس کو ایک منجھے ہوئے تاریخدان کی طرح برتاہے ۔
تاریخ نویسی بلاشبہ ایک اہم ذمہ دار ی ہت تصنیف و تالیف کے نقطۂ نظر سے ہی نہیں بلکہ علم تاریخ کے تقاضوں کے لحاظ سے بھیی بھی ملک و قوم کے ماضی اور حال کے واقعات ، حالات و کیفیـات کو منصبی ایمانداری کے ساتھ قلم بند کرنا دیدہ وری ہی کا نہیں بلہکہ اعلیٰ ظرفی کا بھی امتحان ہوتا ہے ۔اسکے لئے بصیرت درکار ہوتی ہے اور جسارت بھی پھر اس کی باز گوئی یـا بازیـافت کے ذریعے نئی نسلوں تک تاریخی حقیقتوں اور شواہد کو معتبر ماخذوں اور حوالوں کے ساتھ بلا کم و کاست پیش کرنا بھی کچھ کم اہم کام نہیں ہے ۔ جس مـیں ہوسکتا ہے عظمتوں کے مـینارے بھی ہوں اور کہیں کہیں پستیوں کے غار بھی ۔مگر کئی ملک و قوم کو اپنے ارتقا کے سفر مـیں کن معرکوں اور انقلابوں سے دوچار ہوناپڑا ہے ۔اس کی سیـاسی ،سماجی ،ثقافتی او رمعاشی زندگی کے مدوجزر کا رُخ کیـا تھا؟ افراد یـا جماعتوں اور اُن کے رویے کیـا اور کیسے رہتے ہیں پروہ محرکات کیـا رہے ہیں انجام کار ، نتائج و عواقب نے طرح کروٹیں لیں اور آج تازہ صورت حال کیـا ہے ۔ان سب باتوں پر نظر رکھنا اور قلم اُٹھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں لیکن عشرتؔ صاحب نے اس عمل کو بخوبی نبھایـا ہے ۔
مضامـین کی نوعیت کے اعتبار سے انہیں مندرجہ ذیل حصوں مـیں مرتب کیـا گیـا ہے ۔
ا۔ب۔ج۔د۔ھ۔و۔ز۔ح۔ط۔ی۔ک۔ل۔م۔ن۔س۔ع۔ف۔ص۔ق۔ر۔ش۔ت۔ث ۔ خ۔ ذ۔ض۔
ان صفحات مـیں مورخ عشرتؔ کاشمـیری نے اپنی پیش لفظ مـیں تاریخ کشتواڑ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جس مـیں کشتواڑ کی خوبصورت وادی کو سطح سمندر سے ۵۳۰۰ فُٹ بلند بتایـا ہے ۔ طول بلد مرشقی ۴۶ء۷۵ درجے اور عرض بلبد۱۸ء۳۳ درجے شمالی دکھایـا ہے ۔اس طرح یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ رقبے کے لحاظ سے تحصیل کشتواڑ جواب ضلع بن گیـا ہے ماسوائے ضلع لداخ ،ڈوڈہ سب سے بڑی تحصیل ہے ،پھر حرف (ث) کے بعد پیغام کے عنوان سے ایک نظم درج ہے جس کو عشرتؔ کاشمـیری نے اپنے عہد شباب کی ایک مختصر نظم لکھا ہے ۔ چند اشعار حسب ذیل ہیں۔
(نظم)
اُٹھو وطن کے نام پر عزیز کشتواڑیو عزیز کشتواڑیو وطن کے نام پر اُٹھو
نقاب شب ہے چہرۂ جہاں سے برملا اُٹھی دریچے نور کے کُھلے وہ صبح مسکرا اٹھی
جو بے خبر ہیں سورہے پیـام انقلاب دو عزیز کشتواڑیو وطن کے نام پر اُٹھو
حرفِ آخر: تاریخ کشتواڑ ایک قرض تھا جو مـیں پچھلے دس برس سے اُتارنے کی کوشش کررہاتھا۔ مجھے مسرت ہے کہ اپنی زندگی کی بہترین پیشکش یہی کام ہے جسے کچھ حد تک مکمل کرسکاہوں ،تاریخ ایک عمل ہے جو جاری رہتا ہے اور جس کی تکمـیل کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور ہر تاریخ تالیف پر اس کے مولف کے ذاتی ،اعتقادات و خیـالات کی ہلکی یـا گہری چھاپ پڑتی ہے ۔ تاریخ کشتواڑ کے اس لئے بہت سے گوشے دعوتِ تحقیق دیتے رہے ہیں نہ معلوم اس چمن مـیں ابھی کتنے بلبل نغمہ سرا ہوں گے ۔
حرفِ آخر کے بعد اعتراف کے عنوان سے مہتہ اوم پرکاش مرکزی وزیر اور ریـاست کی اکادمـی کا شکریہ ان الفاظ مـیں ادا کیـا ہے ۔
اعتراف: شکر گزار ہوں جناب مہتہ اوم پرکاش کا جنہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود تاریخ کشتواڑ کے تعلق مـیں مـیری ہمـیشہ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اگر ان کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو یہ تالیف منصہ شہود پر جلوہ نما نہ ہوئی ہوتی۔ ریـاست کی اکادمـی برائے کلچر اور زبان کا شکریہ گزار ہوں کہ اس نے تاریخ کشتواڑ کے اس صبر آزما کام کے لئے مجھے پونے دو صد روپے کی نقد امداد عطا فرماکر تاریخ نوازی کا ثبوت دیـا۔
کثیر خرچ کے مقابلے مـیں حقیر امدادی رقم کی اہمـیت اس لئے ہے کہ اکادمـی کے ارباب اختیـار چند برس تک مـیعادِ اشاعت مـیں توسیع دیتے رہے ۔ ان تمام حضرات کا بھی شکر گذار ہوں جنہوں نےی نہی صورت مـیں اس کتاب کی تالیف مـیں مـیری رہنما ئی فرمائی۔
تاریخ کے شروع مـیں فیض احمد فیضؔ کے شعر مـیں ترمـیم کرکے یوں لکھا گیـا ہے
نثار مـیں تیرے گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلے وہ رسم کہ سب سر اُٹھاکے چلیں
عشرتؔ کاشمـیری کشتواڑ( جموں)سابق ممبر اسمبلی
قیمت ۳ روپے۔ مارچ ۱۹۷۳ ء کتبہ سید نور الدین
لیکن کتاب کے کور پر چار روپے درج ہے ۔
دوسرے صفحے پر انتساب سے پہلے یہ شعر درج ہے ۔
تمہاری ذات سے وابستہ اپنے خواب رہے
تمہارے فیض سے ہر سو کِھلے گلاب رہے
انتساب : مـیں یہ عبارت درج ہے۔
ماضی مـیں عظیم کشتواڑی مہتہ منگل نے نہ صرف کشتواڑ کے رستے زخموں پر ہمدردی اور عنایت کا مرہم لگایـا بلکہ لداخ مـیں وہ کارہائے نمایـاں انجام دئے کہ اب تک اہل لداخ اس کی یـاد مـیں سر عقیدت خم کرتے ہیں اور آج اسی مہتہ منگل کا پڑپوتا اور بلند مرتبت کشتواڑی اوم مہتہ اس پسماندہ دور افتادہ اور فلاکت زدہ دیـار کے لئے عظیم اور تعمـیری خدمات بجا لارہاہے ۔
اہل لداخ نے مہتہ منگل کے حضور مـیں سر جھکایـا اور مـیں اہل کشتواڑ کی جانب سے جناب اوم مہتہ کی بار گاہ مـیں یہ قلمـی نذارانہ پیش کرتاہوں۔
اگلے صفحے پر اوم مہتہ کی رنگین تصویر ہے جس کے نیچے انگریزی مـیں یہ حروف ہیں۔
Hon'ble Mehata,State Minister for Parliamentary Affairs and Housing Govt. سپرا ۵۰۰ of India
پیشِ لفظ جو حرف’’ض‘‘ پر ختم ہوتا ہے کُل اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے بعد تاریخ کشتواڑشروع ہوتی ہے جو باب اول سے شروع ہوکر باب ہفتم صفحہ ۱۴۲ ء پر ختم ہوتی ہے ۔ صفحہ نمبر۱۴۳ پر کتب نما کے عنوان سے تاریخ کشتواڑ کی تیـاری مـیں جن کتب سے مدد لی گئی اُس کا ذکر حسب ذیل ہے ۔
پروفیسر فدا محمد حسنین نے عشرت کاشمـیری کی تاریخ کشتواڑ کااس طرح جائزہ پیش کیـا ہے ۔ عشرتؔ کشتواڑ کے رہنے والے تھے اور انہیں اس علاقے کے ساتھ انتہائی محبت تھی ۔وہ ادیب اور شاعر بھی تھے ۔ انھیں تمنا تھی کہ کشتواڑ کی تاریخ لکھی جاسکے۔ ظاہر ہے مصنف نے یہ تاریخ ٹھوس بنیـادوں پر قلمبند کی ہے اور اس پر ان کے دلی جذبات کا گہرا اثر رہاہے ۔ کشتواڑ کے ساتھ جو مصنف کو لگاؤ پیدا ہوگیـا تھا ،اسی نے انہیں کشتواڑ سے متعلق تحقیق کرنے کی تحریک دی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کچھ ایسے معلومات بہم پہنچائے جو سنگ مـیل کی حیثیت رکھتے تھے ۔ مشہور بدھ عالم ناگسین کے بارے مـین اس کی رائے یہ ہے کہ وہ کشتواڑ کا رہنے والا تھا ۔ بطورِ ثبوت وہ کہتا ہے کہ آج بھی کشتواڑ مـیں ایک ایساعلاقہ ہے جس کانام ’’ناگسون ‘‘ یـا ناگ سین ہے۔
مذکورہ علاقے کی وجہ تسمـیہ مشہور بدھ عالم ناگسین ہے ۔ کشمـیر کی طرح کشتواڑ مـیں بھی بدھ مت عروج پر رہاہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کشمـیر مـیں بدھ مت کے ماننے والوں پر ظلم و ستم بڑھنے لگے تو وہ شیو مت کے پیرو کاروں سے دور بھاگ کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے ۔ کشتواڑ،لولاب ،اور دیگر ملحقہعلاقے بدھ مت کے پیروکاروں کی پناہ گاہ بنے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قحط اور دوسرے آفات کے دوران کشمـیری کشتواڑ مـیں پناہ لیتے تھے ۔’’ملہندہ پنہ‘‘ کے کشمـیری مـیں لکھے جانے کی روایت موجود ہے اور منیندر کی حکومت مـیں قندہار کا سارا علاقہ پنجاب ، سنگھ اور کاٹھیـاواڑ بھی اس کے ساتھ شامل تھے ۔اس طرح ناگسین کے بارے مـیں یہ روایت بھی موجود ہے کہ وہ کشمـیر ی تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کشتواڑی باشندہ ہو ۔ کیونکہ کشتواڑی زبان کشمـیری زبان کا قدیم روپ ہے ۔ عشرتؔ کاشمـیری نے کشتواڑ کے ساتھ محبت مـیں اور بھی دریـافت کی ہے ۔ یعنی آگ پر کرنا ۔ اٹھارہ بھوجہ والی دیوی کے استھان پر منعقد کی جانے والی ایک تقریب کے موقع پر آگ کے انگاروں پر ناچنا ۔ایسا یونان کے رقاص بھی کرتے تھے ۔ ممکن ہے سکندر اعظم کے واپس جانے کے بعد جب کشمـیر اور کشتواڑ مـیں یونانی شہزادوں کی حکومت قائم ہوئی تو اُسی زمانے مـیں شاید اس ناچ کا رواج ہوا ہوگا۔مگر عشرتؔ کاشمـیری کی کاوش قابل داد ہے جس نے تاریخی معلومات ہم تک پہنچائیں ۔اسی طرح اس نے کشتواڑ کے جنرل مہتہ منگل اور مہتہ بستی رام کابھی ذکر کیـا ہے ۔ چونکہ مرحوم عشرتؔ کو ادب اور شاعری سے بھی کافی رغبت تھی ۔اس لئے ان کی تاریخ مـیں تاریخ کے علاوہ ادبیت کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ عشرتؔ صاحب نے تاریخی واقعات پر اپنا اثر ڈالا ہے ۔ جس سے اس مـیں او ر بھی چاشنی پیدا ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب لکھنے کے لئے دلچسپ کتابوں کی مدد حاصل کرکے تاریخ کشتواڑ کو ایک مستند تاریخ بنانے کی کوشش فرمائی ہے ۔ جس مـیں کچھ حد تک کامـیاب بھی رہے ہیں ۔ کشتواڑ کی تاریخ پریہ اہم کوشش ہے ۔ لہذا اس کی تعریف بھی ضروری محسوس ہوتی ہے ۔ خاص کر یہ کتاب ایک ادیب نے تحریر کی ہے ۔ی تاریخ دان نے نہیں ۔ پھر بھی عشرت نے کوشش کی ہے کہ یہ تاریخ مکمل بن جائے ۔
’’بحوالہ‘‘ سون ادب ۱۹۸۷ ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری ذات سے وابستہ اپنے خواب رہے
تمہارے فیض سے ہر سوکھلے گلاب رہے
( انتساب )
ماضی مـیں عظیم کشتواڑی مہتہ منگل نے نہ صرف کشتواڑ کے رِستے زخموں پر ہمدردی اور عنایت کا مرہم لگایـا بلکہ لداخ مـیں وہ کارہائے نمایـاں انجام دئے کہ اب تک اہل لداخ اس کی یـاد مـیں سرِعقیدت خم کرتے ہیں اور آج اسی مہتہ منگل کا پڑپوتا اور بلندمرتبت کشتواڑی اوم مہتہ اس پسماندہ ، دور افتادہ اور فلاکت زدہ دیـار کے لئے عظیم اور تعمـیری خدمات بجالارہاہے ۔ اہلِ لداخ نے مہتہ منگل کے حضور مـیں سرجھکایـا اور مـیں اہل کشتواڑ کی جانب سے جناب اوم مہتہ کی بارگاہ مـیں یہ قلمـی نذرانہ پیش کرتاہوں ۔
عقیدت کیش
عشرتؔ کاشمـیری
کشتواڑکی خوبصورت وادی سطح سمندر سے ۵۳۰۰ فٹ بلند ہے ۔اس کا طول بلد مرقی ۴۶ء۷۵ درجے اور عرض بلد۱۸ء۳۳ درجے شمالی ہے ۔ آب و ہوا گرمـیوں مـیں خوشگوار اور سرما مـیں سرد ہے۔ خاص کشتوار مـیں تیز اور تند ہوا چلتی ہے ۔ جو سردیوں مـیں ناقابل برداشت اور گرمـیوں مـیں دھوپ کی حدّت کو اعتدال پر لاتی ہے ۔ مجموعی طور پر آب و ہوا صحت افزا ہے ۔
بحالتِ موجودہ تحصیل کشتواڑ ریـاست کے تمام ضلعوں مـیں ماسوائے اضلاع لداخ ڈوڈہ بلحاظ رقبہ سب سے بڑہی تحصیل ہے ۔ ضلع ڈوڈہ کا کل رقبہ ۲ء۴۳۸۰ مربع مـیل ہے اور کشتواڑ تحصیل کا رقبہ ۹ء۳۰۱۶ مربع مـیل ہے ،تحصیل کشتواڑ شمال مشرق مـیں ہماچل پردیش ، شمال مـیں کشمـیر ، مغرب مـیں ڈوڈہ اور جنوب مـیں تحصیل بھدرواہ سے ملتی ہے ۔ کل آبادی ۹۲۰۰۰ نفوس پر مشتمل ہے۔قدیم ریـاست کشتواڑ مـیں تحصیلات ڈوڈہ ماسوائے مرمت اور رام بن کے علاقے شامل تھے ۔ضلع ڈوڈہ کی اس وقت کل آبادی ۲۶۸۴۰۳ ہے جبکہ قدیم ریـاست کشتواڑ کی آبادی حسب ذیل ہے:
تحصیل کشتواڑ ۹۲۰۰۰
تحصیل ڈوڈہ ۵۴۱۸۰( تحصیل ڈوڈہ بشمول مرمت ۵۸۳۸۶ آبادی رکھتی ہے)
تحصیل رام بن ۷۱۲۲۶(تحصیل رام بن کی بشمول بٹوت ۷۳۶۴۸ آبادی ہے)
مـیزان کل ۲۱۷۴۰۶
گویـا آج اگر ریـاست کشتواڑ برقرار ہوتی تو دو لاکھ آبادی کا ایک راجواڑہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر نے اپنی تزک مـیں راجۂ کشتواڑ کو زمـیندار پٹہ کشتواڑ لکھاہے ۔
معدنی لحاظ سے تحصیل کشتواڑ کے سینے مـیں بیش قیمت خزانے دفن ہیں ۔ ابرق، سیسہ، جپسم اور نیلم منظر عام پر آچکے ہیں اور دوسری پوشیدہ دولت کا سراغ ابھی تک نہیں لگایـاگیـا ہے ۔ پہاڑوں کی
ھلانوں مـیں چیل، پرتل ، دیودار او ردیگر عمارتی لکڑی کے جنگلات لہلہاتے ہیں ۔ ان جنگلوں مـیں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار پایـاجاتا ہے ۔ چنانچہ آج سے پچاس سال اوپر بھی انگریز شکاری دشوار گزار راستوں کو طے کرکے اندرونی علاقوں مـیں شکار کھیلنے آیـا کرتے تھے ۔ ایک بدقسمت فرنگی شکاریی حادثہ کا شکار ہوکر خاص کشتواڑ مـیں دفن کیـاگیـا تھا ۔ قدیم زمانہ مـیں کشتواڑ کی طرف مغلوں اور کشمـیری تاجداروں کو جو خراج دیـاجاتا تھا ۔اس مـیں بازاور جرہ پرندے بھی شامل ہوتے۔ ایسے علاقے بہت کم ہیں جہاں آبپاشی کا خاطر خواہ انتظام ہوتا ہو۔اس لئے زیـادہ تر پیداوار مکئی،جو گندم اور دالوں کی ہے ۔
کشتواڑی۔ کشمـیر کی ہمسایگی نے نہ صرف تاریخ کے دھارے موڑے ہیں اور کشتواڑ کی ملکی سیـاست کو زیر و زبر رکھا ہے بلکہ روایتوں مـیں بھی یکسانی پیدا کی ہے۔مثلاً کشمـیر کے متعلق مہاراجہ گلاب سنگھ کے مصنف پنڈت سالگرام کول لکھتے ہیں ’’روایت ہے کہ جس وقت کشمـیر کی سر زمـین ایک جھیل کی حالت مـیں بلند کوہستان کی چوٹیوں تک پانی اور برف سے پُر ہوکر ’’ستی سر‘‘ کے نام سے ملقب تھی اُس وقت کیشب جی کشتواڑ مـیں بھی رہتے تھے اور یہاں ہی سے کشمـیر کی طرف بڑھ کر اور کوثر ناگ کے پہاڑ پر بیٹھکر جھیل مذکور کاپانی نکالنے کے واسطے انہوں نے تپسیـا کرنا شروع کی ۔ کیشب جی کا گذر چوں کہ پہلے کشتواڑ مـیں ہوا،اس واسطے اس سر زمـین کانام کیشب وار یعنی کیشب جی کے رہنے کی جگہ پڑا۔‘‘
روایتوں نے کشمـیر کی طرح کشتواڑ کو بھی جھیل کے شکم سے جنم دیـاہے ۔ کشمـیر مـیں وتستہ( جہلم) اور کشتواڑ مـیں چندربھاگا،وہاں ستی سر اور یہاں وسیع جھیل۔ ایک ہی کہانی کے دو روپ ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمـیر مـیں جب ناگا برسر اقتدار آئے تو اُن کی ایک جماعت نے کشتواڑ کو بھی اپنے زیر نگین کیـا ۔ چنانچہ ایسے متعداد مقامات ہیں جن کے ساتھ ناگ وابستہ ہے ۔ مثلاً ناگ ایشور ، گودرش ناگ ، کانی ناگ، گمانی ناگ ، ڈامر ناگ اور ناگ سین ، ناگاؤں کی تہذیب و تمدن کے دیئے ایسے بجھے کہ روشنی کی ایک کرن بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ صرف بیشمار صدیوں کے چکر مـیں ناگ نام رہ گیـا ہے ۔
ناگاؤں کے بعد آریـائی نسل کے قبیلے ان پہاڑوں مـیںآئے اور انہوں نے حکمران ناگ قبیلوں کو
شکست دے کر دور افتادہ پہاڑی وادیوں مـیں بھگا دیـا اور بچی کھچی آبادی کو مطیع کرلیـا۔ رفتہ رفتہ دونوں قوموں کو وقت نے ایک رنگ مـیں رنگ دیـا ۔ چنانچہ صدیـاں بیت جانے پر بھی رنگ ونسل کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ اکثر خالص آریـائی نقش سرخ و سپید چہروں پر دکھائی دیتے ہیں اور کہیں کہیں خاص طور پر دیہات مـیں گندمـی رنگ کرخت چہرے ، چھوٹی آنکھیں ،موٹی ناک غیر آریـائی نسل کی طرف ذہن کو منتقل کردیتے ہیں ۔ ’’کشتواڑ مـیں قلم اور بندوق کے ساتھ کے مصنف مسٹر آٹودوتھ فیلڈ نے صفحہ ۱۷ پر سنتھن بنگلہ کے چوکیدار کا تعارف کرانے کے بعد لکھا ہے ۔’’ مـیرے لئے شاید اس خوش باش اور وحشی شخص کی عجیب تر چیز یہ تھی کہ وہ درجہ خلافِ امـید ہندوستانی دکھائی دیتا تھا اور یہی حیرت مجھے دوسرے کشتواڑیوں کو دیکھ کر ہوئی ۔‘‘مصنف مذکور نے چوکیدار کا جو قلمـی چہرہ بیـان کیـا ہے ۔وہ ایک مخلوط نسل کے فرد کا ہے ورنہ وہ اگری سو فیصد کشتواڑی کو دیکھتے تو عش عش کر اُٹھتے اور اُنہیں اس کے چہرے پر سیـاہی اور عجیب و غریب ناک نقشہ دکھائی نہ دیتا۔
جنگجو کشتواڑی:کشتواڑ کو کوئی کلہن نہیں ملا جو راج ترنگنی مـیں اُن کے کارنامے محفوظ کرتا اور اپنے شاعرانہ بیـان سے روایتوں مـیں رنگینی پیدا کرتا اور اگر کوئی ہوا بھی ہو تو اُس کاکارنامہ دستبرد زمانہ سے نہیں بچا ہے ۔لیکن ایک حقیقت ظاہر ہے کہ شمالی اور وسطی ہند مـیں جو ں جوں انقلاب آتے گئے ۔وہاں کے جنگجو قبیلے امن و امان کی تلاش مـیں ان پہاڑوں مـیں وارد ہوتے گئے ۔آٹھویں دسویں صدی تک یہ سلسلہ جاری رہا،گوکشمـیر سے سیـاست وقت کے شکار ،جاگیرداریت کے مظلوم او رقحط سالی کے فاقہ کش مجبور اُنیسویں صدی تک کشتواڑ کی پناہ گاہ مـیں سکھ کا سانس لینے کے لئے آتے رہے۔
جو لوگ باہر سے آئے وہ زیـادہ تر راجپوت اور ٹھکر تھے ،ان کے بعد ہریجنوں کی تعداد ہے اور سب سے کم براہمن فرقہ ہے ۔اس تعلق مـیں پاڈر کو مثال کے طور پیش کیـاجاتاہے جہاں ٹھکرا ور ہریجن بیشتر تعداد مـیں ہیں اور براہمن بہت قلیل ہیں ۔یہ وہ خطہ ہے جو انقلابوں کی کم سے کم آماجگاہ رہاہے ۔
بہر حال ان جنگجو قبیلوں نے آزادی کی مشعل کو عرصۂ دراز تک روشن رکھا۔ اکبرِ اعظم نے کشمـیر کو تو فتح کرلیـاتھا لیکن کشتواڑ کو تابعِ فرمان بنانے کی حسرت اُسے بھی رہی۔درحالے کہ کشمـیر کاآخری حکمران
اکبر کے جرنیلوں سے شکست کھا کر کشتواڑ مـیں پناہگزین ہواتھا اور یہاں سے بار بار کشمـیر پر حملہ آور ہوتا تھا ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے نامور جرنیل وزیر زور آور سنگھ کلہوریہ نے جو کشتواڑ کے گورنر تھے۔اپنی مہم لداخ کی داغ بیل کشتواڑ مـیں ڈالی تھی ۔اُن کی فوج کے سرکردہ کمانداروں مـیں سابقہ مملکت کشتواڑ کے مہتہ بستی رام ،اوتم پڈیـار ، وزیر کھوجہ بھونچہ،قطب شاہ ولد نور شاہ، دائم ملک اور ظفر لون ساکنان مڑواہ رانا ظالم سنگھ ساکن اڑنورہ (گھٹ ڈوڈہ) مرزارسول بیگ ساکن اُودیـانپور(ڈوڈہ)وغیرہ شامل تھے۔ یہ جیـالے فوجی نہ صرف جنگجو اور آزمودہ کار سپاہی تھے بلکہ ایک ایسے خطّے سے تعلق رکھتے تھے جوکامل فرقہ وارانہ اتحاد اور سیکولر فلسف�ۂ حیـات رکھتاتھا ۔ یہاں یہ عرض کرنابھی بیجا نہ ہوگا کہ وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ اچھے حکمران کی طرح جہاں شجاعت مـیں شیر تھا اور جنگی تدابیر مـیں بے نظیر تھا وہاں ملکی انتظام او رعام انتظامـیہ مـیں سیکولر نظریہ رکھتاتھا ۔اُس نے اپنی فوج کے جہاں ہندو کمانداروں کو ان کی بہادری پر خصوصی انعامات سے نوازااور مہاراجہ گلاب سنگھ سے جاگیریں دلوائیں وہاں مسلم کمانداروں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھا۔
خصوصی روایـات: کشمـیر کی طرح کشتواڑ بھی روادار اور اتحاد پر ور روایـات کا علمبردار رہا۔ کشمـیر مـیں تو مہر گل نے جوہن قوم سے تعلق رکھتا تھا بدھوں کو بے پناہ ظلم وستم کانشانہ بنایـا ۔ چکوں کے عہدِ حکومت مـیں شیعوں اور سنیوں کے خوفناک فسادوں کی آگ بھڑکتی رہی ۔ لیکن کشتواڑ اس قسم کے مذہبی جنون سے آزاد رہا اور آج تک فرقہ وارانہ مـیل ملاپ کے جذبے سے کشتواڑ ی سرشار ہیں ۔رواداری اور احترام باہمـی سے اُن کا ضمـیر اٹھا ہے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ کشتواڑ کی سرحدوں پر خاص طور پر شمالی سرحدوں پر کھاسلیہ کے راجپوت آباد تھے ۔ آج کھاسلیہ مـیں مسلمانوں کی آبادی اکثریت مـیں ہے ۔ کشمـیر سے جابر و ظالم حکومتوں کے ستائے ہوئے ،قحط اور افلاس کے مارے ہوئے ان علاقوں مـیں جو ق درون جوق آتے رہے اور فراخ دل راجپوت وقت کے ان مظلوموں کو آباد کرتے رہے اور پناہ دیتے رہے حتیٰ کہ مہمانوں کی تعدادمـیزبانوں سے بڑھ گئی ۔ پاڈر مـیں مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ علاقہ انتہائی دشوار گذار اور دور دراز تھا ۔ کشمـیرسے آنے والے وہاں تک نہ پہنچ سکے ۔ کشتواڑی راجے مسلمان ہونے کے باوجود مسلم و غیر مسلم رعایـا سے یکساں سلوک کرتے تھے ۔ بلکہ راج دربار کے طور طریقے وہی تھے جو ہندو راجاؤں کے وقت مـیں رائج تھے ۔ مسلم راجے ہندووانہ اور اسلامـی دونوں نام رکھتے تھے ۔مثلاً املوک سنگھ سعادتمند خان ، مہر سنگھ سعادتمند خان ، محمد تیغ سنگھ سیف اﷲ خان وغیرہ ، باقاعدہ پروہت مقرر تھے ۔ راجہ کی شادی کی تقریب یـای اور تقریب پر براہمنوں کو انعامات او رجاگیریں ملا کرتی تھیں ۔ ہندوؤں کے مذہبی مقامات کیلئے بھی جاگیریں وقف کی جاتی تھیں ۔ ایسے بیس پٹے ( فرمان) راقم کی نگاہ سے گذرے ہیں ۔جن مـیں براہمنوں کو مسلم راجاؤں نے اراضی بطور جاگیر عطا کی ہے ۔آخری تاجدارِ کشتواڑ راجہ محمد تیغ سنگھ نے اپنی حکومت کی طرف سے اپنی ریـاست کے سرکردہ شہریوں ، حکومت کے ممتاز حاکموں اور مقدس مقامات کے لئے تیل اور تمباکو کا کوٹہ مقرر کیـاتھا ۔ مقدس مقامات مـیں ہندو اور مسلمانوں کے متبرک آستانے اور ٹھاکر دوارے شامل تھے ۔
تیغ سنگھ کی حکومت کو ختم کرکے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ریـاستِ کشتواڑ کومہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام پر جموں مـیں شامل کیـا ۔اس وقت بھی اس روایت پرستی نے ایک او رمثال قائم کی تھی ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے خلاف سراج مـیں ایک زبردست بغاوت ہوئی یہ بغاوت راجہ محمد تیغ سنگھ کی حمایت مـیں تھی اور اس کا سرغنہ ایک ہندو راجپوت بھکم تھا۔ بھکم یـا بکرم کے ساتھ سید محی الدین شاہ بھی علمِ بغاوت بلند کرنے مـیں شریک تھا۔مذہب:ضابطۂ اخلاق اور فلسفۂ حیـات کانام مذہب ہے ۔وہ ہمدردی ، رحم ،عفو وکرم اور خدمت کے جذبات کو تحریک دیتاہے ۔ اہلِ کشتواڑ اس حقیقت پر عمل کرتے رہے کہ مذہب انسانیت کا معمار ہے ۔ قاتل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ مـیں مختلف مذہبی دور گزرے اورانقلاب آئے لیکن کشتواڑ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ نہ لگا اور اس سر زمـین نے خاموشی سے وقت کی رفتارکو قبول کیـا ۔ایک وقت تھا کہ ناگایـاناگ قبیلے کشتواڑ مـیں آباد تھے ۔ پھر بدھ درھ م نے اپنی ہر دلعزیزی کے پرچم لہرائے ۔ کشتواڑ مـیںآج بھی موضع پوچھال کی طرح پتھر کے ستونMegalith پائے جاتے ہیں۔ پاڈر جہاں نیلم کی کانیں ہیں وہاں ابھی موضع کبن اور دیگر مقامات پر بدھ مت کے پیرو آباد ہیں ۔ مذہبی مقامات کی ساخت Stupa طرز کی ہے ۔پروفیسر غلام محی الدین حاجنی نے اپنی کتاب’’ ک�أشری شاعری‘‘ کے تعارف مـیں لکھا ہے کہ مشہور بدھ عالم ناگسین نے اپنی تصنیف ’’ملندہ پنہ‘‘ Malinda Panha کشتواڑ ی زبان مـیں سوال و جواب کے پیرایہ مـیں لکھی تھی جس کا ترجمہ پالی اور سنہالی مـیں بھی ہواتھا۔ پروفیسر صاحب کا قیـاس ہے کہ ناگسین کشمـیری تھا۔ اگر یہ قیـاس درست ہے تو یہ بدھ عالم یقیناًکشتواڑی تھا او ل تو اس نے کشتواڑی مـیں اپنی کتاب لکھی اور دوسرے یہ کہ آج بھی کشتواڑ کے علاقے کانام ناگسون یـا ناگسین ہے ۔ جناب S.Radhakrishnan بدھ مت کے ۲۵۰۰ سال مـیں لکھتے ہیں۔ہندی یونانی بادشاہ مـیناڈر بدھ مت کا بڑا سرپرست اور حامـی تھا۔ مـیناڈرManader پالی کتاب مالندہ پنہ Malanda panha کے سوالات کے کرداروں مـیں سے ایک ہے ۔ اس کے (یونانی بادشاہ مـیناڈر) کے شکوک قابل احترام ناگسین نے دور کردئے تھے ۔مـیناڈر کی حکومت مـیں پشاور، کابل، کی بالائی وادی ،پنجاب ، سندھ ، کاٹھیـاواڑ ،ایسا دور دراز علاقہ اس کی مملکت مـیں شامل تھے ۔ تو کشتواڑ نسبتاً ہمسائیگی مـیں تھا۔ ناگسین اور بادشاہ کی ملاقات کے تعلق مـیں S.Radhakrishna ایس رادھا کرشنا صاحب (۱)بیـان فرماتے ہیں یہ ایک خوش کُن اتفاق تھا کہ ایک دن بدھ بادشاہ بدھ بکشو ناگسین نام کو دیکھا ۔ جو بکھشا مانگنے جارہاتھا ۔ اس کامـیاب مقالمہ پر جو بادشاہ اور بکھشو کے درمـیان ہوا ۔ ملندہ پنہ کی بنیـاد رکھی گئی ہے ۔ جو ابتدائی بدھ مت کے پالی ادب کی بے حد قابل ذکر کتاب ہے اور جسے بدھ گوشاپانچویں صدی عیسوی مـیں پالی سکالر تھااس نے وسو دی مارگ کتاب لکھی ہے جسے بدھ گوش نے سند ماناہے اور تسلیم کیـا ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ جب کشمـیر مـیں بدھوں کا ستارہ اقبال غروب ہوگیـا اور مہایـان فرقہ بھی اپنی کوششوں کے باوجود بدھ مت کے زوال کو نہ روک سکا ۔تو کشتواڑ مـیں بھی ہندو دھرم کا سکہ پھر سے جاری ہوگیـا بلکہ کشمـیر سے شیو فلسفہ کے عالم اس ریـاست مـیں بھی آکر آباد ہوگئے اور انہوں نے علم و دانش کے چراغ روشن کئے۔ حکمرانوں کی طرف سے ،علماء و فضلاء کی قدر دانی بھی ہوتی رہی اور علم و ادب کے پرستاروں نے گوشۂ امن و عافیت مـیں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کا شغل اختیـار کیـا ماضی کے یہ انمول خزانے بھی پورے طور پر دریـافت نہیں ہوئے ہیں ورنہ کشتواڑ کے براہمنوں نے علم کے چمن مـیں جو پھول کھلائے تھے اُن کی خوشبو سے اہلِ نظر شادکام ہوتے۔سنگیت سنگرہ: کشتواڑ کے راجہ نریندر سین(۷۵۱۔۷۴۶ء) کے عہد مـیں یہ کتاب لکھی گئی ہے جو علم موسیقی سے تعلق رکھتی ہے ۔ کتاب کے مصنف شری وک ہیں ۔پورانام معلوم نہیں ہوسکا۔ قابل مصنف آغازِ کتاب مـیں بیـان کرتا ہے ۔’’اورجوبھی علم موسیقی کے ماہر ہیں اُن سب کو پہلے نمسکار کرتاہوں اور کشتواڑ کے راجہ نریندر سین کی اجازت سے شغل کے لئے شری وک دلچسپ عنوانات سے اسی دلکش کتاب کو مزین کرتاہے ۔۔۔۔ اس مـیں ایسے نغمے ہیں جو رسیلے اور فطری ہیں اور اصلی راگوں سے ڈھالے گئے ہیں ۔اس کتاب مـیں تشبیہات و استعارات ہیں ۔۔۔کشتواڑ کی دھرتی کابڑا اندر جو نریندر سین نام کا ہے ۔اس کی جے جے کارہو۔‘‘امرکوش کی تشریحات:۔راج ترنگنی کے مترجم مسٹر ایم ۔اے سٹین جلد اول کے صفحہ ۴۷ پر لکھتے ہیں۔’’ راجنک رتن کنٹھ کی یـاد ابھی تک کشمـیری پنڈتوں کی روایـات مـیں زندہ ہے ۔ ایک بڑے عالم اور بہت تیز لکھنے والے کے طور پر ۔ مـیں نے خود سرینگر مـیں مندرجہ ذیل مسودّوں کی نقلیں جو اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں حاصل کی ہیں ۔۱۔ امر کوش پر رائے مکت کی تشریحات ۔یہ کتاب کشتواڑ یـا کشتواڑ مـیں ساکاس ۱۵۷۷ ء یـا ۵۶۔۱۶۵۵ بکرمـی مـیں لکھی گئی تھی۔۲۔ سری کنٹھ کرت پر جون راجہ کی تشریحات ۔مـیرے رائے مکت کے مسودہّ سے جو کشتواڑ مـیں ۱۶۵۵ ء مـیں لکھا گیـا ۔اندازہ لگاتے ہوئے عیـاں ہوتا ہے کہ رتن کنٹھ باہر سفر کرتے ہوئے بھی مسودّوں کی نقلیں کرناجاری رکھتا تھا۔‘‘ علاوہ ازیں کتاب بھون کوش جوٹاپو گرافی پرمعلومات فراہم کرتی ہے کشتواڑ کے اُس علمـی خزانے مـیں پائی گئی جو منظرِ عام پر آکرمحفوظ ہوچکاہے ۔ ایک اور کتاب بھوگل پران کا سراغ پلماڑ مـیں ملا ہے ۔آج سے تین سو سال پہلے امرکوش کی تشریحات کا کشتواڑ مـیں لکھا جانا اُسی صورت مـیں ممکن ہوسکتا ہے جبکہ یہاں مسندِ علم پر سنسکرت کے عالم مبتحر جلوہ افروز تھے اور ایسے ہی علم کے شیدائیوں کی کاوشوں کی تلاش مـیں رتن کنٹھ کو سرینگر سے کشتواڑ آنا پڑا تھا ۔ رتن کنٹھ کو بھان کی ہرش چرت کا مسودہ بھی کشتواڑ مـیں دستیـاب ہوا تھا ۔ علم جوتش پر کشتواڑ مـیں متعدد بلندپایہ کتابیں لکھی گئی تھیں اور اُن مـیں سے چند ایک آج بھی باقی ہیں ۔اس علم مـیں کشتواڑی براہمنوں کو بڑا بلند مقام حاصل تھا کیونکہ کشتواڑی حکمران اکثر اُن سے اپنے مستقبل کے بارہ مـیں رائے لیـا کرتے تھے ۔ جوتش کے علاوہ علمِ کیمـیا مـیں راج پروہت کمال رکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک بار تاریخ غلط بتانے کے سبب اور اپنی بات منوانے کے لئے ایک سرکردہ پروہت نے ایران کے ماہِ نخشب کی طرح آسمان پر ایک مصنوعی چاند کو اپنے علم سے زمـین پر اتار لیـا تھا ۔ سنسکرت کے علوم کا زوال ریـاستِ کشتواڑ کے کشمـیر اور دہلی کے مسلم حکمرانوں کے زیر اثر آنے سے شروع ہوا۔ خود کشتواڑ کے راجے بھی سترھویں صدی کے وسط مـیں دائرہ اسلام مـیں آگئے اور رفتہ رفتہ نیـا مذہب کشتواڑ کے اطراف مـیں پھیل گیـا ۔ اسلام کی اشاعت کی حسبِ ذیل وجوہات تھیں:۔۱۔ کشمـیر حلقہ بگوش اسلام ہوچکاتھا۔وہآں جب جب قحط سالی نے عوام کو لقمۂ اجل بنانا شروع کیـا ۔ تحصیل اننت ناگ کی آبادی کا کچھ حصہ سنگپورہ چھاترو اور واڑون منتقل ہوتا رہا۔ یہ مہاجران سرحدی علاقوں مـیں مستقل طور پر آباد ہوگئے اور کشتواڑ خاص کی طرف بڑھتے گئے ۔واڑون سے دچھن کی طرف مسلم مہاجروں کے قدم تیز تیز نہ بڑھ سکے اس لئے کہ کشمـیر سے جہاں وہ کلچرل لحاظ سے وابستہ تھے۔دُور ہوجاتے تھے اور دچھن مـیں نئی آبادیـاں قائم کرنے کی گنجائش کم تھی۔۔ غیر مسلم اہلِ کشتواڑ نے رواداری اور بھائی چارہ کا ثبوت دیـا۔ بونجواہ آخر وقت تک ایک ہندو جاگیررہا لیکن آبادی کا بیشتر حصہ مسلمان ہے ۔ سنگپور کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ قدیم کھاسلیہ کاموضع ہے جہاں راجپوت رہتے تھے۔ لیکن آج وہاں بھی مسلمان اکثریت مـیں ہیں ۔ سنگپور کا ذکر جہانگیر نے بھی اپنی سوانح عمری تزک جہانگیر مـیں کیـا ہے ۔۳۔ مسلم صوفیـاء نے اپنے اخلاقِ حسنہ، انسان نوازی اور خدا دوستی کے سبب خاموش انقلاب پیدا کیـا ۔ کشمـیر کے سرخیلِ طائفہِ ریشیـاں حضرت شیخ نو ر الدین ولی قدس سرہ کاخاندان سرتھل کشتواڑ سے ہجرت کرکے کشمـیر گیـاتھا ۔ ان کے بلند مرتبہ مردی حضرت زین الدین ؒ جو عیش مقام مـیں مدفون ہیں بھنڈارکوٹ کے رہنے والے نومسلم راجپوت تھے۔پھر جنوب کی طرف سے حضرت سید شاہ محمد فریدالدین قادری قدس سرہٗ العزیز کشتواڑ مـیں تشریف فرماہوئے ۔اُن کی اور ان کے چاروں خلفاء کی پاکیزگی نفس انسان دوستی اور کشف و کرامات سے اہل کشتواڑ متاثر ہوئے اور آج تک اُن کا آستانہ مرجع خاص و عام ہے ۔ حضرت شاہ صاحب ؒ کے عالی مقام صاحبزادوں یعنی حضرت سید شاہ محمد اسرار الدین قدس سرہٗ ،حضرت سید اخیـار الدین قدس سرہٗ نے بھی اپنے روحانی تصرفات سے کشتواڑ کو متاثر کیـاتھا۔
۴۔ آخری دور کے راجاؤں کے اسلام قبول کرنے سے اُن کے حلقۂ اثر کے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔فارسی ادب: ریـاست کشتواڑ مـیں مسلمانوں کے اثرو رسوخ کے بڑھ جانے سے نیز کشمـیر اور مغلیہ سلطنت کے ساتھ تعلقات کے سبب اسلامـی علوم فنون کو فروغ حاصل ہوا فارسی زبان کا دائرہ اثر بڑھتا گیـا حتیٰ کہ غیر مسلم راجے بھی فارسی مـیں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ اس زبان مـیں شعر گوئی کرتے تھے ۔ راجہ بہادر سنگھ (۱۵۷۰ء لغایت ۱۶۰۵ء) کے عہد سے فارسی نے راج دربار مـیں اپنے قدم جمانے شروع کئے تھے۔ بہادر سنگھ کے کشمـیر کے چک حکمرانوں سے قرابت کے تعلقات تھے ۔یعقوب شاہ کی بیوہ شنکر خاتون نے اپنی زندگی کا آخری حصہ اپنے وطن مالوف کشتواڑ مـیں بسر کیـاتھا ۔ وہ علماء و فضلاء کی بڑی قدر دان تھی اور اس کے ذاتی ملازموں مـیں شاعر،حافظ اور عالمِ دین شامل تھے ۔ چک خاندان کے بہت سے افراد کشتواڑ مـیں رہتے تھے اور یہ سب کشمـیری اور فارسی بولتے تھے ۔تاریخ مـیں جس راجہ کے سر پر فارسی علم و ادب مـیں کمال حاصل کرنے کا تاج رکھاگیـا ہے وہ راجہ مہاسنگھ عرف مہاجان (۷۴۔۱۶۶۱ء) ہے ۔ کشتواڑ کی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ وہ نہایت عادل اور سخی تھا۔ سنسکرت اور فارسی کے فن شاعری مـیںمہارتِ کامل رکھتاتھا۔حضرت سید شاہ محمد فرید الدین قادری بغدادی علیہ الرحمہ نے اپنے خلیفہ شاہ محمد درویش کو تبرکات اپنی کلاہ دی تھی ۔اس کے بارہ مـیں حضرت شاہ صاحب کے اپنے دست مبارک کی تحریر خاکسار عشرت کے پاس موجود ہے جو فارسی مـیں ہے مضمون حسبِ ذیل ہے:
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
امابعد
بنابریـاد آاوری بااعتماد ووثوقِ اہل اسلام این چند حروف تحریر مے شوند۔کہ یک عدد کلاہ برنگ سرنگ خط دار سفید بطور تبرک بہ خلیفۂ خاص خود شاہ محمد درویش دارم۔ خلیفۂ مذکورہ تبرکاَّ وتیمنا نزدِ خود موجود نہادن خواہد۔والسلام۔
سید شاہ فرید الدین قادری بغدادی
مہر
سید فرید الدین قادری
یہاں شاہ صاحب کا شجر�ۂ نسب بھی درج کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔یہ فارسی مـیں حضرت شاہ صاحب کے بارہ مـیں تصنیف ’’روضۃ العارفین‘‘ سے لیـاگیـا ہے:فرید الدین بن سید مصطفےٰ بن سید عبداﷲ بن شیخ یحیٰ طاہر بن سید عبدالرزاق بن سید عبدالقادر ثانی بن سید حسین بن سید علی بن سید محمد بن سید یحیٰ بن سید احمد بن شیخ محمد بن شیخ نصیر بن سید تاج الدین بن سید ابوبکر بن سید عبدالرزاق بن محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ علیہ ۔گویـا حضرت شاہ صاحب چودہ واسطوں سے حضرت پیرانِ پیر عبدالقادر جیلانی سے وابستہ ہوجاتے ہیں ۔اس شجرۂ نسب سے بھی شاہ صاحب کا عہد معلوم کیـاجاتاہے۔قاضی نیـاز اﷲ اپنے وقت کے فقیہ اور عالم دین تھے۔ انہوں نے وقایہ کی شرح منظوم لکھی تھی ۔راجہ عنایت اﷲ کے قتل کی تاریخ ان سے یـاد گار ہے ۔ قاضی نیـاز اﷲ کشمـیر کے مشہور عالم و صوفی حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفی قدس سرہٗ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ کشتواڑ مـیں عہدہ ، قضا ان کے خاندان مـیں آج تک چلا رہا ہے ۔مولوی عبدالرسول پال راجہ عنایت اﷲ سنگھ کے عہد کے سر برآوردہ عالم اور جامع کمالات تھے ۔شعر و شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے ۔حضرت نصر الدین ناصر خاندانِ قاسمـیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے مورثِ اعلےٰ حافظ ابوالقاسم تھے جو راجہ کیرت سنگھ کے عہد مـیں (۱۷۶۴ ء) بقیدِ حیـات تھے ۔ اس خاندان نے کشتواڑ مـیں مشعلِ علم و ادب کو فروزاں رکھا۔ یکے بعد دیگرے بہت سے حافظ عالم دین اور شاعر و ادیب ہوئے ۔آستانۂ حضرت سید محمد اسرار الدین رحمۃ اﷲ علیہ کی سجادہ نشینی اس خاندان مـیں ابھی تک برقرار ہے ۔ حضرت نصر الدین نے تاریخِ کشتواڑ(قلمـی) کا ترجمہ سنسکرت سے پہلی بار فارسی مـیں کیـاتھا۔
مصنف نے آگے صفحہ(م) پر ایک فارسی غزل کے چند اشعار بہ عنوان
بے کارم و باکرم چوں مد بحساب اندر
گویـایم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر
تحریر کی ہے جو نصر الدین ناصر کی تخلیق نہیں بلکہ حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی تخلیق ہے ۔جو خاندان چشتیہ کے روشن چراغ بزرگ تھے اور حضرت نظام الدین اولیـاء کے جانشین ہیں بمقام اودھ بے پیدا ہوئے ۔اپنے پیرو مرشد کے تیس سال بعد 18 رمضان ۷۵۷ ء کو رحلت فرما گئے ۔ یہ غزل ماھنامہ شبستان دہلی شمارہ 22 جون مـیں بھی چھپی ہے جو حسب ذیل ہے ۔
بے کارم و باکرم چوں مد بحساب اندر
گویـایم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر
اے زاہدِ ظاہر بیں از قُرب چہ مـی پُرسی
اودرمن ومن دروے چوں بوبہ گلاب اندر
دریـااست پُر از چشممترنہ شود ہرگز
ایں طرفہ عجائب بیں تشنہ هست بآب اندر
گہہ شادم و گہہ غم غین از حال خودم غافل
مـی گریم ومـی خندم چوں طفل بخواب اندر
درسینہ نصیر الدین جز عشق نمـی گنجد
ایں طرفہ عجائب بیں دریـا بحباب اندر
________ تصحیح کار: فداؔ کشتواڑی
حضرت ناصر کے دونوں صاحبزادوں مولانا ضیـاء الدین ضیـاء اور مولانا سعد الدین نے بھی گلشنِ علم و ادب کی آبیـاری کی ہے ۔ ضیـاء صاحب کی روضۃ العارفین مـیں زیـادہ تر حضرت سید شاہ محمد فرید الدین قدس سرہ العزیز اور اُن کے فلک مقام صاحبزادوں کے حالات اور اُن کے اقوال بیـان کئے گئے ہیں ۔ کشتواڑ مـیں جو محفلِ شعر و سخن آراستہ تھی وہ راجہ تیغ سنگھ کی حکومت کا تختہ الٹ جانے پر درہم برہم ہوگئی۔ اہلِ فن سرپرست نہ ہونے کے سبب کہیں سے کہیں پہنچ گئے ۔ بعض گوشہ نشیں ہوکر گمنامـی کی زندگی گذارنے لگے اور بعض نے ہند کی دوسری ریـاستوں کا رُخ کیـا ۔ جہاں جو ہر فن کی قدردانی ہوتی تھی ۔حاجی عطاء اﷲ عطا اور مولانا حمایت اﷲ نے دیـار کشتواڑ کو خیر باد کہا۔ حاجی عطاء اﷲ عطا ہند کے مختلف شہروں کی سیـاحت کرتے ہوئے حجاز تشریف لے گئے او رمدینہ منورہ مـیں مدفون ہیں ۔ مولانا حمایت اﷲ نواب بھوپال کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں وہ شاہی خاندان کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ ان دو بھائیوں کے علاوہ مولوی کلیم اﷲ عالم و فاضل اور بُلند پایہ شاعر تھے لیکن اُن کے مزید حالات دریـافت نہیں ہوسکے۔زبان: کشتواڑی زبان کے متعلق عام خیـال یہی ہے کہ وہ قدیم کشمـیری کا رُوپ ہے ۔ سنسکرت نے اس زبان کے دامن کو مالا مال کیـا ہے ۔اس کو لہجہ (Dialect) نہیں کہاجاسکتا ۔ کیونکہ قدیم حالت مـیں برقرار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زبان کو راج دربار کی سرپرستی حاصل نہیں ہوسکی اور اس طرح ادیبوں اور شاعروں نے اس طرف کم توجہ دی کیونکہ اُنہیں حکمرانِ وقت سے صلہ مـیںی انعام یـا جاگیر کے ملنے کیاُمـید نہ تھی ۔جب فارسی چار سو سال تک درباری زبان رہی اس کے اثر سے یہ زبان پاک رہی کیونکہ ایسے شاعروں نے اس مـیں طبع آزمائی نہیں کی جو فارسی مـیں بھی شعر کہتے تھے اور عوام سے فارسی مـیں بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ اس طرح اس مـیں فارسی کا ملاپ قابلِ ذکر حد تک نہیں ہوا ۔اس کے برعمـیری پر فارسی کااثر غالب رہا اور سنسکرت کااثر کم ہوتاگیـا ۔دربار کی سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود یہ زبان زندہ ہے کیونکہ اسے عوام کی سرپرستی ملتی رہی ۔
پروفیسر محی الدین صاحب حاجنی نے ’’کاشری شاعری‘‘ کے تعارف مـیں متعدد بار کشتوار کا ذکر کیـا ہے ۔ صفحہ چار پرفرماتے ہیں ۔’’آج یہ بات بھی چلی ہے کہ بدُھوں کا بہت بڑا مذہبی علم ناگ سین بھی شاید کشمـیری تھا۔ جس نے اپنی کتاب’’ملندہ پاہنہ‘‘ اُس زمانے کی کشتواڑی کشمـیری مـیں سوال و جواب کی صورت مـیں کہی تھی جس کا پالی اور سنہالی مـیں ترجمہ ہو ا۔اصل گُم ہوگیـا اور ترجمہ باقی رہا۔‘‘’’مہانے پرکاش‘‘ واحد کشمـیری کتاب ہے جو اپنی صحیح حالت مـیں زمانے کے دستبرد سے محفوظ رہی ہے ۔اس کا مصنف شتی کنٹھ ہے کشمـیری زبان کے محقق جارج گریسن کا خیـال ہے کہ مصنف نے یہ کتاب پندرھویں صدی مـیں تحریر کی تھی لیکن پروفیسر حاجنی صاحب اسے تیرھویں صدی کی تصنیف سمجھتے ہیں۔اس کتاب مـیں شیو مت فلسفہ بیـان کیـاگیـا ہے اور شاردارسم الخط مـیں اسے لکھاگیـا ہے ۔اس کتاب کا آخری شعریہ ہے ۔
پأوِت یہ کموَ پیوس پساوے شِتہ کنٹھس گتہ زمہ کِتاتھو
تینہ مہ مہجن کھلہ تمہ سادے تے مارادے ۔مہتے پرماتھو
کشمـیری مـیں ،فعلِ حال کے لئے چُھوبا اس کے مشتق استعمال کئے جاتے ہیں لیکن کشتواڑی کشمـیری تُھو۔ شتی کنٹھ نے بھی تھو استعمال کیـا ہے ۔اس سے کشتواڑی اور قدیم کشمـیری جس پر سنسکرت سایہ فگن تھی ،کارشتہ ثابت ہوتاہے۔حاجنی صاحب صفحہ۱۳ پر لکھتے ہیں۔’’ لیکن کشتواڑ پر فارسی زبان کا اثر کم پڑا، اس لئے بہت سے وہ کشمـیر ی الفاظ وہاں موجود رہےجنہیں یہاں (کشمـیری )فارسی نے اپنے نیچے کچل دیـا۔ علاو ہ ازیں بہت سے کشمـیری الفاظ نے وقت کے ساتھ ساتھ دوسرا چہرہ بدل لیـا ۔ مگر کشتواڑیوں نے پُرانا چہرہ ہی برقرار رکھا۔ مثلاً ہم کہتے ہیں۔’’وُنی پھاٹہ وَے کلہ‘‘ کشتواڑی اس جملے کو کہیں گے۔’’اُنئی ٹھانےَ شِیر‘‘غیر کشتواڑی کشمـیری جب کشتواڑی زبان کو سُنے گا تو اُسے پورا مفہوم سمجھ مـیں نہیں آئے گا ۔وہ کشتواڑی کو کشمـیری سے ملتی جلتی زبان تو سمجھ لے گا لیکن ایک ایسی زبان جس پر اُسے عبور نہ ہو ۔حاجنی صاحب فرماتے ہیں:۔’’کشمـیری مـیں بلاضرورت سنسکرت یـافارسی استعمال کرنے کے علاوہ ہمار ی زبان نے لہجہ اور اسلوب مـیں بھی کچھ کچھ مقامـی طور طریقوں کو اپنا لیـا ہے ۔اس لئے کشتواڑ کی اورکشمـیروالوں کی کشمـیری سرینگر کی کشمـیری سے سوفیصد نہیں ملتی۔‘‘ یہ خیـال حقیقت پر مبنی ہے کشتواڑی سرینگر کی کشمـیری آسانی کے ساتھ بول سکتے ہیں لیکن سرینگر کےی باشندے کے لئے کشتواڑی کشمـیری کا بولنا مشکل ہے کیونکہ کشتواڑی مـیں ایسے الفاظ ہیں جنہیں اُس نے پہلے کبھی نہ سُنا ہوگا اور جن کا تلفظ اتنا دُرشت ہے کہ اس کی زبان اُس کا ساتھ نہ دے سکےجب تک مہینوں ریـاضت نہ کرے ۔
ذیل مـیں کشتواڑی کے چند ایسے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں جو کشمـیری سے مختلف ہیں ۔ یہ نمونہ مشتے از خراوارے ہے اور انتخاب مـیں باقاعدگی نہیں ہے ۔تحقیق کے لئے یہ مـیدان کھلا ہوا ہے ۔
کشتواڑی کشمـیری کشتواڑی کشمـیری
دپُن ونُن تھُو چھُو
کیـاہو ہتہ سأ کتہِ گیـاکھ کوت گِیـاکھ
شُنڈ بُتھ پنہ ادہ
شیرہ تھِم ہُلن کلس چھوم دوٗد ہیگری صبحن
کیـا بھئے کیـابنی زہن مِژ
ژوڑے زِیون باأھِ پتر
پائیں آب منج ژوچ
ککڑی منج مکائی ژوچی وہرسُن بٹھور وُشکی بٹھور
گوں بٹھور کنک بٹھور ژاہ لسی
ژھیل ساوج گبؤ گبؤ
گبڑ کٹھ ہنٹھو پکِیو
کاکرِ لآر وومنگل پیشن چائے
ناہری ناشتہ زونڈ کنن
مکوئی مکژ ڈال کدالی
چھوڑ اخروٹ ،ڈون کوژک آنچہ
انکار ژوئین بسان بستر
لُٹ کلہ تھونس اَینگٹ
مازن لسُل مندری پتج
تئکالن شامک دخ
اگرچہ کشتواڑی پر فارسی زبان اثر نہ ڈال سکی ۔ لیکن ڈوگری کاکچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑا ہے ککڑی۔ کاکر مکوئی، بسان ،ترکالن وغیرہ الفاظ ہمارے خیـال کی تائید کرتے ہیں ۔ مہاراجہ رنجیت دیو (۱۷۲۵ ء ) کے عہد مـیں کشتواڑ جموں کے تخت سے براہ راست وابستہ ہوگیـاتھا اور کچھ عرصہ وہاں کے کار دار یہاں حکومت کرتے تھے ۔اس تعلق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈوگری زبان نے اتنا اثرو رسوخ حاصل کرلیـاتھا کہ آخری کشتواڑی راجوں کے بہت سے فرمان اور پٹے ڈوگری مـیں لکھے ہوئے ہیں ۔ ناگر پنڈت ، جلا پروہت جو راجہ امولک سنگھ اور راجہ مہر سنگھ کے وزیر تھے۔ منگل سین جوراجہ سبحان سنگھ کا وزیر تھا۔ راجہ تیغ سنگھ کے وزیر جٹوگور ، کھوجہ بھونچہ وغیرہ نے جو پٹے لکھے ہیں وہ سب ڈوگری مـیں ہیں ۔ڈوگرہ حکومت کے قیـام کے بعد یہ اثر و رسوخ اور بھی بڑھا ۔مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد مـیں دفتری زبان ڈوگرہ رہی ۔ڈوگری مـیں تاجرانہ حسابوکتاب رکھنا قدرے آسان ہے ۔ مسلمان فارسی مـیں خط و کتابت کرتے تھے لیکن حساب وکتاب ڈوگری اعداد مـیں رکھتے تھے ۔رفتہ رفتہ عام کشتواڑی اور اپنی علاقائی زبانوں کے علاوہ ڈوگری بھی بولنے لگے۔ہر ماحول اپنے باشندوں پر اثر ڈالتا ہے اور اپنے مخصوص رنگ مـیں انہیں رنگ لیتا ہے ۔ یہی مخصوص رنگی خطے کی تہذیب و تمدن کی نشاندہی کرتاہے کشمـیر مـیں کشمـیری پھرن یـا پیراہن پہنتے ہیں، گول ٹوپی سر کی زینت بناتے ہیں اور چاول خور ہیں ۔ان کے مکان سلامـی دار اور کئی منزلہ ہوتے ہیں ۔ لیکن یہی کشمـیری جب ہجرت کرکے کشتواڑ مـیں آباد ہوئے تو پھرن کی جگہ کرتے یـاانگرکھے نے لے لی ۔ گول ٹوپی سروں سے غائب ہوگئی اور اُس کے بجائے لداخیوں کی وضع کی کنٹوپ سروں پر دکھائی دینے لگی ۔ چاول صرف تہواروں اور بیـاہ شادی کی تقریبوں مـیں استعمال ہونے لگے ۔ مکئی کی روٹی یـا جو کے خمـیرے دو وقت استعمال کئے جانے لگے اور سلامـی دار کئی منزلہ مکان غائب ہوکر صرف چوڑی چھتوں کے کوٹھے رہ گئے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی زبان کشمـیری رہی لیکن اس کےو لہجہ مـیں بھی فرق آگیـا ۔ بوڈ ہیو لڑکہ کے بجائے بوڈہیوبوکت(بڑالڑکا) کہنے لگے ۔رہنے سہنے اور کھانے پینے کے معاملے مـیں کشتواڑی کشمـیر کی بہ نسبت اپنے جنوب کے خطوں سے متاثر رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر کو راجہ کشتواڑ کا لباس اہلِ ہند کی طرح معلوم ہوا۔کشتواڑیوں کے ذہن کی تشکیل مـیں مختلف اور متضاد عناصر نے کام کیـا ہے ۔زبان کشمـیری ہے ،مقامـی تہوار جنہیں جاترہ کہاجاتا تھا ۔عام طور پرموسمـی تہوار تھے ۔ بہادون سے اسوج تک جگہ جگہ یہ مـیلے لگے تھے ۔ ہٹہ کے گاؤں مـیں جہاں دیوی اشٹ بھوجہ کامندر ہے سب سے پہلی جاترہ منعقد ہوتی تھی ۔یـاترہ مـیں پروگرام پیش کرنے والے نقال اور بھانڈ مسلمان ہوتے تھے ۔ ممکن ہے مسلمانوں کی آمد سے پہلے کوئی دوسرا فرقہ یہ کام کرتاہو ۔ جاترہ مندر سری نیل کنٹھ کے سامنے ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ حضرت اسرار الدین اور حضرت فرید الدین رحمۃ اﷲ علیہم کے مزاروں پر بھی منعقد ہوتی تھیں۔چوگان کے وسط مـیں کٹک جاترہ کامـیلہ ہوتا تھا ۔ جس مـیں ہاتھی کی شکل بنائی جاتی تھی ۔یہ جاترہ بسوہلی کے راجہ کی شکست کی یـاد گار کے طور پرمنائی جاتی تھی ۔علاوہ ناچ او رگانے کے اس جاترہ مـیں بھیڈووں کا مقابلہ ہوتا تھا اور جوبھیڈوزبردست ٹکر مار کر اپنے حریف کو بھگا دیتاتھا ۔ وہ جیت جاتا تھا اور مالک کی تعریف ہوتی تھی ۔ پھاگن کے مہینے مـیں سدھان ، ساتن، کاکل اور نکاس نام کے نو تہوار مقرر تھے ۔ پہلے نکاس تک عورتیں گھر سے باہر قدم نہیں نکالتی تھیں ۔ یہ تہوار دوسدھان ، ایک ساتھن ،تین کاکل اور تین نکاس کے دنوں پر مشتمل تھے ۔ ایک رسم بھوم جہوائی تھی۔ اس رسم کے مطابق اپنے اپنے کھیتوں مـیں کوئی چیز بڑے تھال مـیں پکا کرلے جاتے تھے اور بچوں مـیں تقسیم کردیتے تھے اور ایک نوکدار لکڑی کو جس پر اون ، کمول ، نرگس کے پھول اور پھلدار درختوں کے پتے لپیٹے ہوتے تھے ۔کھیت مـیں گاڑ دیتے تھے۔ یہ تہوار بھی موسمـی تھے جو موسم سرما کے خاتمہ پر اور زمـین کونئی فصل کے لئے تیـار کرنے کے موقع پر منائے جاتے تھے ۔ یہ سب تہوار مقامـی روایتوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ کشتواڑیوں کاقدیم لباس اونی ہوتا تھا۔ عورتیں اون کی ایک لمبی چادر جسم پر اوڑھتی تھیں جسے لمبی لمبی سوئیوں سے اٹکا لیـاجاتاتھا۔ یہ لباس بڑی حد تک وادی کانگڑہ کے لوگوں سے ملتا جلتا تھا ۔ یہ عوام کے لباس کی بات ہے ورنہ خواص وقت کے فیشن سے مُتاثر رہتے تھے جو کشمـیر اور جموں سے درآمد ہوتاتھا۔دراصل اہل کشتواڑ کی نمایـاں خصوصیـات مذہبی رواداری، انسانی بھائی چارہ ،صداقت شعاری اور حق پرستی رہی ہیں ۔اُن مـیں کشمـیریوں کی فہم وزکاء ، ڈوگروں کی بے خوفی اور دلیری اور پہاڑی باشندوں کی جفاکشی اور قناعت پسندی پائی جاتی ہے ۔ مجموعی حیثیت مـیں وہ امن پسند ہیں بشرطیکہ اُن کی غیرت اور خودداری کو للکارا نہ جائے ۔وہ کشتواڑ پرستی اور مقامـی حب الوطنی کے جذبہ سے سر شار رہے ہیں ۔وطن کے نام پر انہوں نے مغل شہنشاہیت سے ٹکر لی اور مغلوب ہوجانے پر جب بھی موقع ملا ،علم بغاوت بلند کیـا۔چونکہ انیسویں صدی تک کشتواڑ کی اپنی ریـاست قائم رہی ، اس لئے اُن کے کردار مـیں دوہری شخصیت ،منافقت ،مکاری اور شخصی مفاد پرستی کی وہ برائیـاں پیدا نہیں ہوئیں جو ایسی قوم اور افراد مـیں پیداہوجاتی ہیں جو صدیوں تک غلامـی استبداد اور مظلومـیت کاشکار رہی ہوں اور جہاں ذاتی تحفظ و اقتدار ہی فلسفہ حیـات بن چکاہو ۔ کشتواڑیوں نے اپنی تاریخ مـیں دو ہی راستے اپنائے ہیں ۔ مخالفت کی ہے تو اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور حمایت مـیں کمر باندھی ہے تو پورے اخلاص اور وفا کے ساتھ ۔ ایک زبردستبغاوت کے بعد جب مہاراجہ گلاب سنگھ کا حلقہ اطاعت قبول کیـا تو پھر مہاراجہ کے وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ کے جھنڈے تلے لداخ،اسکردو او رپوریگ تک اپنی شجاعت ،سرفروشی اور نمک حلالی کا ڈنکہ بجاآئے۔کشتواڑ کی تاریخ مـیں جاگیرداریت کا دورہ دورہ رہاہے ،اس لئے حکمران خاندان اور اُس سے وابستہ سردار خوشحال رہے اور زندگی کی آسائشوں کا لطف اُٹھاتے رہے لیکن عوام پسماندہ ، مفلوک الحال اور ضعیف الاعتقاد رہے ،یہ ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کا نتیجہ ہے کہ کشتواڑ خاص اور علاقہ جات مـیں ڈینوں witches اور اُن کا تدارک کرنے والے’’ باروالوں‘‘ کا طوطی بولتارہا۔ کشتواڑ تو کشتواڑ وائن نے اپنے سفر نامہ مـیں جبکہ جنوری۱۹۳۹ ء مـیں وہ بھدرواہ پہنچا تھا ، بھدرواہ مـیں ایک ڈین کی گرفتاری کاحال درج کیـا ہے ۔ انگلستان مـیں ولیم شکسپئر کے عہد مـیں ڈینوں کا جوزور و شور تھا وہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں مـیں انیسویں صدی تک جاری رہا۔اقتصادی حالت:۔جاگیر داریت اور راج شاہی مـیں عوام کی معاشی بہبودی اور خوشحالی کے امکانات تاریک رہے ہیں۔ظلم و ستم کے اس دور مـیں زندہ رہنا بڑی نعمت سمجھا جاتا تھا ۔ اگر راجہ انصاف پسند اور رعایـا نواز ہوا تو عوام آرام کا سانس لیتے تھے اور ان کی زندگی کے ٹمٹماتے دئے جلتے رہتے تھے ورنہ خانہ جنگیوں اور لوٹ کھسوٹ کی قیـامتیں ان پر اکثر ٹوٹتی رہتی تھیں۔اقتصادی لحاظ سے اہلِ کشتواڑ کادرجہ زیـادہ بلند نہیں تھالیکن غذائی لحاظ سے وہ خود کفیل تھے ۔دراصل ماضی مـیں موجود تحصیل کشتواڑ چراگاہوں سے بھر پور اور مال مویشی سے معمور تھی ۔ آبادی کم تھی ، مزروعہ رقبہ کافی تھا۔ اراضی زرخیز تھی خشک سالی کی موجودہ تباہی نہیں تھی ۔ جنگلوں کی شادابی سے بارشیں خوب ہوتی تھیں ۔ اس لئے زرعی پیداوار کی افراط تھی۔ تاریخِ کشمـیر مـیں درج ہے کہ کشتواڑ سے اکثر غلہ درآمد کیـاگیـا ۔ جب کبھی کشمـیرمـیں تباہ کن قحط پڑتا تھا توضلع اننت ناگ کے سرحدی دیہات کے باشندے کشتواڑمـیں پناہ لیتے تھے ۔ چھاترو، دربیل اور مڑواہ کے باشندوں کی بیشتر آبادی ایسے خاندانوں پر مشتمل ہے جو قحط سالی مـیں کشمـیر سے بھاگ کر کشتواڑ کے ان علاقوں مـیں آباد ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ کشتواڑ کی غذائی حالت اطمـینان بخش نہ ہوتی تو کشمـیر کے مہاجر یہاں آخر مستقل طور پر آباد نہ ہوتے لیکن جوں جوں آبادیبڑھتی گئی اور زمـین اپنی زرخیزی کم کرتی گئی ۔ کشتواڑ ،خوراک کی کمـی کا علاقہ بنتا گیـا۔تحصیل ۱۸۰۶۷۲۰ ایکڑ یـا ۲۸۲۳ مربع مـیلوں پر مشتمل ہے ۔ بندوبست نے ۴۱۴۲۰۱ ایکڑ یـا ۶۴۷ مربع مـیلوں کی پیمائش کی تھی۔ اس تحصیل مـیں قابل کاشت رقبہ ۵۰ مربع مـیل ہے ۔ دیہات کی موجودہ تعداد ۱۵۶ ہے۔اس وقت زیر کاشت رقبہ تخمـیناً ڈیوڑھا ہوگیـا ہے ۔خصوصاً زیـادہ خوراک پیدا کرو‘‘ اسکیم کے تحت نہ صرف قابل کاشت بلکہ آبادی سے ملحقہ چراگاہوں کا بیشتر رقبہ بھی آبادکرلیـاگیـاہے۔جس قدر بھی بندوبست عمل مـیں لائے گئے ، اگرچہ اُن سے شرحِ لگان مـیں تدریجاً اضافہ ہوتاگیـالیکن ان تبدیلیوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کاشتکار اور زمـینداروں کے حقوق متعین ہوگئے ،زمـینوں کا مالیہ اور اُن کی حدود مقر ر ہوگئیں او راس قسم کاامکان کم ہوگیـا کہ لاٹھی والا بھینس کامالک ہوگا۔ راجاؤں کے وقت مـیں راجہ کی خوشنودی پر زمـین کی ملکیت برقرار رہتی تھی او رشاہانہ مزاج مـیں تلون کے ساتھ ساتھ ملکیت بھی بدلتی رہتی تھی ۔ امـیروں اور جاگیرداروں کی جاگیریں اکثر تبدیلی اور کم و بیش ہوتی رہتی تھیں ۔ غریب کاشتکار توی شمار و قطار ہی مـیں نہ تھا ۔ آخری بندوبست کے بعد عامان کم از کم یہ محسوس کرنے لگا کہ جس کھیت پر وہ اپنا خون پسینہ بہاتا ہے اُسے کوئی جابر و ظالم محض اپنا ہاتھ طاقتور ہونے کے سبب نہیں چھین سکتا ۔اس کی اقتصادی حالت مـیں بھی قدرے بہتر ی پیدا ہوئی او رکہیں کہیں اس کے بچے مولوی صاحبان ، مکتبوں ، پاٹھ شالوں اور سرکاری اسکولوں مـیں پڑھنے لگے دراصل تحفظِ ذات ہی ایک ایسی نعمت ہے جو شخصی حکومتوں اور جاگیدارانہ نظام مـیں عام نہ تھی ۔ راجگانِ کشتواڑ کے عہدمـیں صرف دو ہی طبقے اس وقت کےء سماج مـیں پائے جاتے تھے ۔ یعنی طبقۂ اعلیٰ اور طبقۂ ادنےٰ ۔درمـیانہ طبقہ بالکل نہ تھا۔خاص و عام کی ترکیب اُسی وقت کی یـاد گار ہے ۔خاص مـیں جاگیردار،مصاحب ،منصبدار اورفوجی سردار تھے ، عام مـیںان ،مزدور ،کاریگر اور تاجر وغیرہ تھے ۔
اگرچہ ڈوگرہ حکومت بھی شخصی حکومت تھی لیکن مہاراجہ گلاب سنگھ کے ابتدائی قبضۂ کشتواڑ کے ایـام کو چھوڑ کر نسبتاً باقی عرصہ عوام کے لئے بہتر تھاکیونکہ شعبہ جات مال ،پولیس ، جنگلات ، تعلیم تعمـیراتِعامہ وغیرہ منظم ہوچکے تھے اور مقامـی حاکم وقت تک ایک عام آدمـی کی رسائی ممکن ہوچکی تھی ۔ صرف ایک نمایـاں تبدیلی محسوس کی گئی اور وہ تھی غلے کی پیداوار مـیں کمـی ، دراصل امن و امان کے مستقل ہوجانے سے عام آبادی مـیں اضافہ ہوا ۔ جنگلات کاکچھ حصہ ختم ہوجانے سے سالانہ بارش کی اوسط کم ہوگئی ۔دو ایک خوفناک قسم کے قحط پڑے ۔ مال مویشی کی کمـی کے سبب زمـین مـیں مناسب تعداد مـیں کھادکااستعمال نہ ہونے سے غلے کی عام پیداوار مـیں کمـی واقع ہوئی اور کشتواڑ غلے کاخسارہ رکھنے والا علاقہ بن گیـا۔عام آدمـی کی عادتیں بھی بڑی حد تک بدل گئیں ۔ پرانے زمانے مـیں عام لوگ موٹاجھوٹا اناج خود کھاتے تھے اور اچھی قسم کاغلہ مثلاً چاول گندم فروخت کردیـاکرتے تھے ۔چائے بالکل نہیں پیتے تھے ۔صرف دو وقت کھانا کھاتے تھے ۔ پہننے کے لئے گھروں مـیں لگی ہوئی کھڈیوں پر پٹو اور ادنیٰ کپڑے خود تیـار کرلیـاکرتے تھے اور بارہ مہینے گرم کپڑے پہنے رہتیے تھے ۔ آہستہ آہستہ پرانا طرزِ رہائش بدلتاگیـا۔خاص تو خاص دور افتادہ دیہات مـیں رہنے والے عوام بھی دو وقت چائے پینے لگے۔ گرمـیوں مـیں پٹو کے کپڑوں کی جگہ سوتی کپڑے پہننے لگے، گھروں مـیں چوب چراغ کی جگہ مٹی کاتیل جلنے لگا، چاول زیـادہ کھائے جانے لگے جبکہ و ہ خاص خاص تہواروں ہی پر کھائے جاتے تھے ۔ ان بدلتی ہوئی عادتوں نے نئی نسل کو اس قدر محنتی اور دقت پسند رہنے نہیں دیـا جس قدر پڑانی نسل کے لوگ تھے۔راجاؤں کے وقت مـیں جو مقامـی صنعتیں تھیں وہ سرپرست نہ ہونے کے سبب ختم ہوگئیں ۔ کشتواڑ جموں سے ۱۴۰ مـیل کے فاصلے پر ہے۔ ذرایع آمد ورفت مشکل تھے ۔یہ بھی ممکن نہ تھا کہ مقامـی صنعتیں جموں کی صنعتوں سے مقابلہ کرکے بازی لے جاتیں کیونکہ بار برداری کے اخراجات ہی اس قدر زیـادہ ہوتے تھے کہ وہ مارکیٹ مـیں مہنگی پڑتی تھیں۔ ۱۹۵۶ ء سے پہلے بس سروس جموں سے ٹھاٹھری تک شروع ہوچکی تھی۔ ٹھاٹھری سے کشتواڑ صرف پندرہ مـیل ہے جبکہ جموں سے ٹھاٹھری ۱۲۵ مـیل کی مسافت پر ہے ۔ ۱۲۵ مـیل کا لاری کا فی من کرایہ اڑھائی روپے من تھا او رٹھاٹھری سے کشتواڑ تک ۱۵ مـیل کا پانچ روپے من
سڑکوں کا جال:۱۹۶۲ ء سے باقاعدہ جموں کشتواڑ بس سروس شرو ع ہوئی ۔اس وقت حسب ذیل موٹر روڈز زیر تعمـیر ہیں اور جن کی تکمـیل سے یقیناًعام آبادی کوفائدہ پہنچے گا۔
کشتواڑ سنتھن ڈکسم روڈ: یہ سڑک چھاترو تک جو کشتواڑ سے ۱۶ مـیل دور ہے قریب قریب مکمل ہوچکی ہے ۔اسے سنتھن درہ کی راہ سے مشہور صحت افزاء مقام ڈکسم (دیسو،کشمـیر) سے ملانے کامنصوبہ ہے ۔ اصل منصوبہ یہ ہے کہ پٹھانکوٹ سے بسوہلی ، بسوہلی سے بنی ، سرتھل سے بھدرواہ یـاچمبہ سے بھدرواہ اور وہاں سے ڈوڈہ کشتواڑ ہوتے ہوئے سیـاح چھاترو دیکھتا ہوا۔ڈکسم پہنچے ، گویـا پٹھانکوٹ سے کشمـیر جانے کی یہ دوسری شاہراہ ہوگی ۔ نئے نئے مقامات منظر عام پر آئیں گے بلکہ کشتواڑ اور اننت ناگ کا بیشتر دیہی حصہ مستفید ہوگا کشتواڑ سے سرینگر کا فاصلہ سو مـیل سے بھی کم ہوگاجبکہ بحالتِ موجودہ براہ بٹوت ۱۶۵ مـیل ہے ۔اس سڑک پر آج چھوٹی بڑی گاڑیـاں چلتی ہیں۔
کشتواڑ سرتھل روڈ: سرتھل کشتواڑ خاص سے ۱۲ مـیل کے فاصلے پر بجانب جنوب مشرق واقع ہے ۔یہاں دیوی اٹھارہ بھوجہ کامقدس استھان ہے ۔ ویشنو دیوی کی طرح یہاں بھی سارا سال یـاتریوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ موٹر روڈ سے سرتھل کی وابستگی یـاتریوں کو مزید آسانیـاں بہم پہنچائے گی۔
کشتواڑکیشوان روڈ: یہ پندہ بیس مـیل کے قریب لمبی سڑک ہوگی۔ کیشوان اُدھر کے علاوہ یہ ناگین بال تک جائے۔ اُدہر ڈوڈہ کی جانب سے ڈوڈہ بھرت روڈ بن رہی ہے او راس طرح کشتواڑ سے ڈوڈہ جانے کا ایک دوسرا متبادل راستہ تیـار ہوجائے گا اور ان علاقوں کے گھنے جنگلات سے فائدہ اٹھایـاجاسکے گا اور صحت افزا مقامات منظر عام پر آئیں گے ۔یہ روڈ بھی اب قابل استعمال ہے۔بونجواہ دوندی روڈ: بونجواہ تحصیل کشتواڑ کاعلاقہ ہے جوبھلیسہ کے متصل ہے ۔آباد اور زرخیز ہے۔ دودھ ، گھی ،شہد ،راجماش ،اخروٹ وغیرہ کی منڈی ہے ۔دوندی جوٹھاٹھری کلوتراں روڈ پر واقع ہے ۔ وہاں سے بونجواہ کے لئے اتصالی سڑک Approach Road بن رہی ہے جو کہ مکمل ہوچکی ہے۔
(اپنے عہد شباب کی ایک مختصر نظم)
_________عشرت ؔ کاشمـیری
اُٹھو وطن کے نام پر عزیز کشتواڑیوں عزیز کشتواڑیوں وطن کے نام پراُٹھو
نقابِ شب ہے چہرہء جہاں سے برملا اُٹھی دریچے نورکے کُھلے وہ صبح مسکرا اُٹھی
جو بے خبر ہیں سو رہے پیـام انقلاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پر اُٹھو
وہ دوسروں کے منزلوں پہ جالگے ہیں کارواں
جنہیں وطن کی لاج ہے ،عزیز تر ہے اس کی شان
مگر ہیں حال مست ہم، اسیرِخوفِ جسم و جان
پِسے ہیں اور بعد رہے ہیں زیرِ دور آسمان
یہ ضعف ،ضعفِ مرگ ہی ہے نعرۂ شباب دو
عزیزکشتواڑیو، وطن کے نام پر اُٹھو
ابھی ہیں فاقہ مستیـاں ،ابھی ہیں آہ و زاریـاں
ابھی ہیں سوگواریـاں ،دکھوں کی زخم کاریـاں
ابھی ہیں سینہ چاکیـاں ، ابھی ہیں دل فگاریـاں
عذاب ہی عذاب ہیں،غموں کی شعلہ باریـاں
مسرتوں کی زندگی کو بڑھکے آب و تاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
یہ رشوتوں پر رشوتیں، یہ آفتوں پہ آفتیں
کہیں پہ چیرہ دستیـاں ،کہیں ذلیل حرکتیں
ہزارہا ہی سن چکے ہیں، ظلم کی روایتیں
وطن کے گوشہ گوشہ سے مٹاہی دینگے ظلمتیں
لوظالموں سے پوچھ لیں کہ آج تک جواب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
اٹھو کہ اب وطن مـیں ہم ، بہار تازہ لائیں گے
ارادۂ جوان ہے عمل کے گیت گائیں گے
رکاوٹیں مٹائیں گے ، رکاوٹیں ہٹائیں گے
ہم آگے بڑھتے جائیں گے ،ہم آگے بڑھتے جائیں گے
پیـامِ انقلاب دو ، پیـامِ انقلاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
ہمارا اپنا راج ہے ، ہمـیں ہیں آج حکمران
نیـا جہاں بنائیں گے نئے زمـین و آسمان
ترقیوں کے چار سو لگے ہیں کھلنے گلستان
ہیں اپنے مـیرِکارواں ہی پاسبانِ مہرباں
عمل کو اپنے اب جِلا برنگِ آفتاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو۔
تاریخ کشتواڑ ایک قرض تھا جو مـیں پچھلے دس برس سے اتارنے کی کوشش کررہاتھا ۔ مجھے مسرت ہے کہ اپنی زندگی کی بہترین پیش کش یہی کام ہے جسے کچھ حد تک مکمل کرسکاہوں ۔ تاریخ ایک عمل ہے جو جاری رہتا ہے اور جس کی تکمـیل کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور ہر تاریخی تالیف پر اس کے مؤلف کے ذاتی اعتقادات و خیـالات کی ہلکی یـا گہری چھاپ پڑتی ہے ۔ تاریخ کشتواڑ کے اس لئے بہت سے گوشے دعوتِ تحقیق دیتے رہیں گے ۔ نہ معلوم اس چمن مـیں ابھی کتنے اور بلبل نغمۂ سرا ہوں گے۔عتراف:شکر گزار ہوں جناب مہتہ اوم پرکاش کا جنہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود تاریخِ کشتواڑ کے تعلق مـیں مـیری ہمـیشہ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اگر ان کی عنایت شاملِ حال نہ ہوتی تو یہ تالیف منصۂ شہودپر جلوہ نما نہ ہوتی۔ریـاست کی اکیڈیمـی برائے کلچراو رزبان کا شکر گذار ہوں کہ اس نے تاریخ کشتواڑ کے اس صبر آزماکام کے لئے مجھے پونے دو صد روپے کی نقد امداد عطافرماکر تاریخ نوازی کا ثبوت دیـا ۔ کثیر خرچ کے مقابلہ مـیں حقیر امداد رقم کی اہمـیت اس لئے ہے کہ اکیڈیمـی کے اربابِ اختیـار چند برس تک مـیعاد اشاعتمـیں توسیع دیتے رہے۔
ان تمام حضرات کابھی شکر گذار ہوں جنہوں نےی نہی صور ت مـیں اس کتاب کی تالیف مـیں مـیری رہنمائی فرمائی ہے ۔
عشرت کاشمـیری
سابق ایم ۔ایل ۔اے
کشتواڑ
جموں۱۰ مارچ ۱۹۷۳ ء
خوشنویس: سید نورالدین کاملیؔ
مول:سرینگر
کمپیوٹرکتابت:عبدالجباربٹ
کھاسل:کھش ہمالیہ کے دامن اور اس کی وادیوں مـیں آباد تھے ۔یہ لوگ زراعت پیشہ تھے ۔ تنگ نظری اور خود غرضی سے دُور تھے ۔ چنانچہ جہاں جہاں یہ لوگ آباد تھے وہاں باہر سے آئے ہوئے مصیبت زدہ اور دکھی انسان آباد ہوتے گئے ۔ انہیں کھشوں کی طرف سے زمـینیں ملیں اور جو ممکن سہولیتیں آبادکاری کے لئے ضروری تھیں وہ مہیـا کی گئیں ۔آج بھی بلاک عسر تحصیل ڈوڈہ مـیں کڈگراں کے متصل ایک موہڑہ کانام کھاسلؔ ہے اورجولوگ وہاں آباد ہیں وہ اپنے آپ کو راجپوت کہتے ہیں ۔وقت کی رفتار کے ساتھ پہاڑی علاقوں مـین رہنے والے کھشؔ ،راجپوت اور ٹھکر سلسلوں سے منسوب ہوگئے ۔کشتواڑ کے فلک بوس پہاڑوں مـیں بسنے والوں کے بارہ مـیں پنڈت شیوہ جی درون اپنی فارسی تاریخ ’’احوال ملک کشتواڑ‘‘ مـیں جو ۱۸۸۱ ء مـیں مرتب کی گئی ۔رقمطراز ہیں:۔’’اس سر زمـین مـیں حکام سلف کے عہد سے پہلے جگہ جگہ راٹھی یعنی چھوٹے رانا حکومت کا جھنڈا لہراتے تھے اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کرتے تھے ۔اس جگہ کے باشندوں کی بڑی تعداد ٹھکروں اور تھوڑی سی براہمنوں اور مـیگھوں(ہریجنوں) پرمشتمل تھی۔‘‘اسی ضمن مـیں تاریخ ریـاست کشتواڑ کے پادری مؤلفین جے ہچی سن اور پی ۔ایچ دو گل لکھتے ہیں۔’’عام روایـات اور لوک گیتوں مـیں زمانۂ قدیم کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں کے باب مـیں بے شمار اشارے پائے جاتے ہیں جو دوسرے مقامات کی طرح رانا یـاٹھاکر کہلاتے تھے ۔خاص چندر بھاگا کی وادی مـیں راناؔ کاخطاب بہت کم مشہور ہے لیکن ناگسین ، کونتواڑہ ،سروڑ اور بونجواہ مـیں اُن کی حکمرانی کے آثار پائے جاتے ہیں ۔راج ترنگنی مـیں چندر بھاگا کے ٹھاکروں کے متعلق متعدد بار ذکر آتاہے ۔ گیـارھویں اور بارھویں صدی مـیں یہ طبقہ علاقہ مـیں غالب دکھائی دیتا ہے جبکہ موجودہ وقت مـیں راناؤں کاکوئی سلسلہ باقینہیں ہے ۔ ان ٹھاکروں مـیں سے دونے ہرش کے پوتے بھکتاچرکی ۱۱۰۳ ء مـیں مدد کی تھی جبکہ اس نے کشمـیر کے تخت کو واپس لینے کی جدوجہد کی ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاڈر،بونجواہ اورکونتواڑہ وغیرہ علاقہ جات مـیں مقامـی راناؔ خاندان حکمران تھے ۔ رانا رتناپاسرچمبہ کی طرف سے پاڈر کاکاردار یـاگورنر تھا ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے عہد مـیں جب پاڈر فتح ہوکر مملکتِ جموں کاحصہ بنا، تورتنا پاسر کو ناگسین اور کشتواڑ مـیں جاگیر دی گئی ۔آج بھی سرتھل ،کونتواڑہ ،پوہی وغیرہ مـیں رانا خاندان آباد ہیں۔تاریخ ریـاست کشتواڑ کے پادری صاحبان کا یہ قیـاس درست معلوم نہیں ہوتا کہ کشتواڑ جس سطح مرتفع پر واقع ہے وہ غالباً اپنے گردوپیش کی پہاڑی وادیوں کے مقابلہ مـیں دیر سے آباد ہوئی ۔ کشتواڑ خاص کا محل وقوع اس کی مرکزیت ،مزروعۂ اراضی کازرخیر اور ہموار ہونااور دریـا کے سبب قدرتی دفاع کاموجود ہونا ایسے امکانات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سطح مرتفع اگر پوری کی پوری نہیں تو بھی اس کا بڑا حصہ زمانۂ قدیم سے آباد چلاآتا ہے ۔پھر راج ترنگنی مـیں کشتواڑکاذکر ایک بار ہی نہیں بلکہ متعدد بار کیـاجانا ایک او رواضح ثبوت ہے ۔مملکت کشتواڑ: کشتواڑخاص مـیں مرکزی حکومت قائم ہونے کے بعد جب طوائف الملوکی ختم ہوئی اور علاقے علاقے کے راناؤں کا راج ختم ہوا ۔تب اس ریـاست مـیں حسب ذیل علاقے شامل تھے۔۱۔ ناگسین: کشتواڑ خاص کی مشرقی پہاڑی سے لیکر لدراری نالہ تک یہ علاقہ واقع ہے ۔ اس زمان�ۂ سلف مـیں لدراری نالہ حد فاضل تھا۔دوسری طرف چنبہ کے باج گذارپاڈر کے راناؤں کا علاقہ تھا ۔ ناگسین بدھ مت کا مشہور پرچارک ہوا ہے ۔جسکی کتاب ملندہ پنہہ بدھ ازم کی تفسیر ہے ۔کہتے ہیں وہ اسی علاقے کا باشندہ تھا۔۲۔ دچھن:۔ زبان اور طرزِ معاشرت کے لحاظ سے یہ علاقہ کشتواڑ کے ساتھ وابستہ رہاہے ۔ ہنزل اس کی آخری سرحدی چوکی تھی ۔ یہاں جو ٹھکر آباد تھے ۔ان کی ذات راتھر تھی او ران کی بعض مستورات مہاراجہ رنبیر سنگھ کی حرم سرا مـیں داخل تھیں چنانچہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کی جانب سے عطا کردہحسب ذیل پٹہ آنند ولد بھگوان ٹھکر راتھر ساکن ہنزل کے خاندان مـیں موجود ہے:
۳۔ پرگنہ اوڈیل: کشمـیر کی سرحد سے لیکر کشتواڑ کے مغل مـیدان کے پل سنگمـی تک یہ علاقہ پھیلا ہوا ہے ۔اس مـیں دو مشہور درّے ہیں ایک مربل جس کا دوسرانام سنگپور پہاڑ ہے ۔یہ ۱۱۵۷۰ فٹ بلند ہے اور کشتواڑ خاص سے ۳۰ مـیل کی مسافت پر واقع ہے ۔بڑا تاریخی درّہ ہے ۔کشتواڑ مـیں نہ صرف کشمـیر سے آنے الے مہاجروں ،سیـاسی پناہ گزینوں اور وقت کے ستم رسیدوں کے قافلے آتے رہے ۔بلکہ جب بھی کوئی حملہ ہوا تو اس راستے سے حملہ آوروں نے یلغاریں کیں ۔چنانچہ دلاور خان صوبیدار کشمـیر نے جہانگیر کے عہد مـیں اسی پہاڑ کو عبور کرکے کشتواڑ کے راجہ پر حملہ کیـاتھا اور چار ماہ دس دن تک بھنڈارکوٹ مـیں رُکے رہنے کے بعد کشتواڑ کو فتح کرلیـاتھا۔ کشتواڑ کی متعدد تاریخوں مـیں خاص طور پر تاریخ حسن حصہ اول کے صفحات ۴۹ اور ۷۷ پر کتل مربل کا ذکر ہے ۔دوسرا درہ سنتھن ہے جو چنگام سے نومـیل کے فاصلے پر ہے ۔ یہ درّہ نسبتاً کم مشہور اور کم بلند ہے ۔قدرے طویل ہونے کے سبب اس راہ سے زیـادہ آمد و رفت نہیں ہوتی ہے ۔پرگنہ اوڈیل مـیں مربل کے علاوہ کوشر کوہل یـاد ریـائے چھاترو کا ذکر تاریخ فرشتہ اور دوسری تواریخ مـیں آیـاہے ۔مربل عبور کرتے ہی اس کوہل کے کنارے اکثر لڑائیـاں ہوئی ہیں ۔مرزا حیدر کاشغری کے بارہ مـیں تاریخ فرشتہ جلد چہارم (۱) مـیں درج ہے کہ کوشر کوہل کے کنارے وہ کشتواڑیوں سےنبرد آزما ہوا ۔ جہاز پور یعنی چھاترو ، ڈڈپیٹھ کی جگہ کوئی دوسرا نام فرشتہ نے تحریر کیـا ہے ۔
قلعہ دہار: قلعہ دہار کا ذکر صاف ہے ۔جہاں لڑائی ہوتی تھی ۔جہانگیر نے اپنی تزک مـیں نرکوٹ کا ذکر کیـا ہے ۔جہاں مغلیہ فوج اور راجۂ کشتواڑ کے لشکر کامقابلہ ہواتھا۔مـیرے خیـال مـیں یہ جگہ چھاترو اور مغل مـیدان کے درمـیان کہیں واقع تھی۔ موجودہ پاسر کوٹ اس لئے قرین قیـاس نہیں ہیکہ اس جگہ سے صرف سنگپور کی طرف سے حملہ آور فوج کا مقابلہ کیـاجاسکتاتھا۔سنتھن کی جانب سے جنگ آزمالشکر کو روکنا مشکل ہوجاتا۔ممکن ہے کہ کوٹ مغلمـیدان کا پہلا نام ہو ۔کیونکہ یہ نام مغل فوج کی تباہی کے بعد پڑا ہے او ریہ مغل فوج وہ فوج نہیں تھی جو دلاور خان کی قیـادت مـیں حملہ آور ہوئی تھی۔
۴۔پرگنہ کنتواڑہ: اس مـیں فلر ،پکالن ،دہڑبدان،سیرگواڑ،نار،سرانواں ،ہوڑنہ ،دھار ،کیشوان اورکونتواڑہ کے مواضعات شامل تھے ۔برشالہ جو آج تحصیل ڈوڈہ مـیں ہے وہ کونتواڑہ کا حصہ تھا ۔
۵۔پرگنہ سروڑ سرتھل: اس مـیں اگلے پچھلے سرور اور سرتھل کے دیہات شامل تھے۔
۶۔پرگنہ ڈوڈہ سراج: ڈوڈہ ریـاست کشتواڑ کی سرمائی راجدھانی تھا ۔راجگان کشتواڑ موسم سرما ڈوڈہ کی کم سرد اور غیر برفانی آب و ہوا مـیں بسر کرتے تھے ۔ڈوڈہ سراج مـیں بانہال تک کاعلاقہ شامل تھا۔ بانہال کا پُرانا تاریخی نام مہابل تھا۔ ایک انگریز سیـاح مسٹر فارسٹر ۱۷۸۳ ء مـیں جموں سے سرینگر درۂ بانہال عبور کرکے گئے تھے ۔ انہوں نے اپنے سفر نامہ مـیں تحریر کیـاہے کہ وہ چناب عبور کرنے کے بعد (غالباً رام بن کے مقام پر ) راجۂ کشتواڑ کی عملداری سے گذرے ۔کریم بخش حاکم بانہال نے سرکشی کااظہار کیـاتھا کہ راجہ سوجان سنگھ ۱۷۸۶ ء نے حملہ کرکے دوبارہ قبضہ کرلیـا۔ سراج اور کنڈی کے کوتوالوں کااکثر ذکر آیـاہے کہ انہوں نے مشکل وقت مـیں کشتواڑ کے حکمرانوں کی وفاداری کا ثبوت دیـاتھا ۔راجہ عنایت اﷲ سنگھ کو قلعۂ باہو سے جہاں جموں کے راجہ رنجیت دیو نے اُسے قید کرکے رکھاتھا ۔ انہی کوتوالوں نے آزاد کرایـا اور گدینشین کروایـاتھا۔
۷۔پرگنہ خاص:۔ اس مـیں کشتواڑ خاص اور منڈل کے قر�ؤ شامل تھے ۔منڈل تھا،پوچھال، پلماڑ ،ڈول او رترگام کے مواضعات پر مشتمل تھا او رکشتواڑ خاص مـیں پچھلی لچھ گوہا، پچھلی لچھ غفار، اور بھنڈار کوٹ کے موضعے ۔معلوم ہوتاہے کہ لچھ خزانہ اور لچھ دیـارام بعد مـیں بندوبست کے قریب نئے نام لکھے گئے ہوں گے ۔لچھ خزانہ کاپُرانا نام لچھ گوہا اور دیـارام کالچھ غفار تھا۔
مندرجہ بالا پرگنہ جات کے علاوہ کچھ اور پرگنے بھی تھے جو ریـاست کشتواڑ مـیں شامل تھے ۔یـاباج گزار تھے ۔اُن کا ذکر حسب ذیل ہے :
پرگنہ جسکار: بقول شیوہ جی درون ۔پرگنہ جسکاریـازانسکار کے ۵۱ قر�أ ریـاست کشتواڑ مـیں شامل تھے ۔درصاحب نے اپنی تاریخ مـیں قریوں کے نام بھی درج کئے ہیں ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ جسکار پاڈر اور لداخ کی فتح کے بعد کشتواڑ سے وابستہ کیـاگیـاتھا ۔ ریـاست کشتواڑ کے خاتمہ کے بعد بھی کشتواڑ حاکم نشین شہر تھا اور یہ علاحدہ وزارت تھی جس مـیں بھدرواہ بھی شامل تھا ۔ چنانچہ کشتواڑ کے ایک وزیر وزارت شیوہ جی درون کے نام مہاراجہ رنبیر سنگھ کی جانب سے تاریخ کشتواڑ مرتب کئے جانے کے متعلقہ مندرجہ ذیل خط موصول ہوا۔
’’نقل ارشادصحیح خاص ۱۴۸
از مہاراجہ صاحب بہادروالی جموں وکشمـیر مشیر خاص قیصرہ ہند ، جنرل عساکر انگلشیہ ،اندر مہند سپر سلطنت انگلشیہ مہاراجہ صاحب رنبیر سنگھ جی بہادر ارشاد بنام پنڈت شیوجی وزیر وزارت کشتواڑ چوں درینوقت ارشاد والا بتاکیدتمام بنام شماصادر مـیگر دوکہ کاغذات راجگان پیشین قرار فہرست مشمولہ ارشاد ہذا معرفت واقفان تلاش کنانیدہ درمـیعاددو ہفتہ تیـار کردہ ارسالِ حضور انور سازند ،دریں باب تاکید مزید شناختہ حسب السطور بعمل آرندوتاپانزدہ یوم کاغذتمام ارسال داشتہ رسید بگیرند ،بنابراں اردلی ماموراست رسید دادہ باشند،تاکید هست فقط ۔بتاریخ ۲۹ مگھر ۱۹۴۰ بپنڈت شیوہ جی درون جو ہماری ریـاست کی مشہور شخصیت جناب ڈی پی دھر کے جد ہیں اپنی وزارت کے بارہ مـیں خود رقم طراز ہیں۔
’’ من مسمـی بہ پنڈت شیوہ جی دربن مہانند پنڈت درون بن گنیش پنڈت درسکن�ۂ خطۂ کشمـیر جنت نظیر از حضور سرکار نگردفوں اقتدار درسال ۱۹۳۸ بکرمـی بخطاب وزیرری برحکمرانی ملک کشتواڑ و بھدرواہ مقررو مفخر شدم۔‘‘
۲۔ پرگنہ مڑوہ واڑون: اس پرگنہ کے بارہ مـیں تاریخ حسن حصہ اول کے صفحہ۲۴۰ پر حسب ذیل عبارت درج ہے :۔
’’ یک پرگنہ هست درمـیان دودرہ از کشمـیر بطرف گوشۂ جنوب و مشرق بہ مسافت ۹۶مـیل، ہمـیشہ شامل کشمـیر بودہ است۔مردمانِ آنجا مسلمان و بزبان کشمـیر تلفظ مـیسازند۔
لیکن پادر ی صاحبان نے مڑوہ واڑون کو ریـاست کشتواڑ کی قلمرو مـیں دکھایـاہے چوں کہ ان کا تاریخی مضمون’’ تاریخ ریـاست کشتواڑ ‘‘ لاہور کی ’دی پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی کے رسالے مـیں ۱۹۱۶ ء مـیں شایع ہوا ہے ۔اس لئے یہ امر قرین قیـاس ہے کہ انہوں نے وقت کے حالات کو مدِ نظر رکھا ہے ۔ ہمارا خیـال یہ ہے کہ مڑوہ واڑون کا علاقہ بفر سٹیٹ کے طور پر کشمـیر اور کشتواڑ کے درمـیان رہاہے ۔ وہاں کے مقامـی زمـیندار یعنی لون ملک وغیرہ وقت کے طاقت ور حاکم کے سامنے سراطاعت خم کرتے رہے ہیں ۔اس لئے کبھی کشتواڑ کے باج گزار رہے ہیں اور کبھی کشمـیر کے جہاں تک زبان اورکلچر کے اثرات کاتعلق ہے ۔ظاہر ہے کہ کشمـیر کے قریب ہے اور کشتواڑ دور،نیز واڑون کی چراگاہوں مـیں آج بھی موسم گرما مـیں اننت ناگ کے مشرقی اطراف کے مال مویشی وہاں کے باشندے بھیجتے ہیں۔
۳۔پاڈر: اسے مشہورڈوگرہ جنرل وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ نے ۱۸۳۶ ء مـیں فتح کرکے مہاراجہ گلاب سنگھ کی مملکت مـیں شامل کیـاتھا ۔اس سے پہلے یہ چنبہ کے زیرِنگین تھا اور راجگان چنبہ کی جانب سے مقامـی رانے کا روبار حکومت چلایـاکرتے تھے ۔راجہ عنایت اﷲ سنگھ نے ۱۷۸۳ ء پاڈر پر حملہ کیـا او رمال و دولت لیکر قبضہ برقرار رکھے بغیر واپس کشتواڑ گیـا ۔ اگر اس کا قبضہ پاڈر پر ہوتا تو وزیر زور آورسنگھ کو دوبارہپاڈر فتح کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی؟
۴۔ بونجواہ: راجہ عنایت اﷲ سنگھ نے بھدرواہ کو بھی پاڈر کی طرح تاخت و تاراج کیـاتھا ۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی راجہ کے عہد مـیں بونجواہ کشتواڑ کی ریـاست مـیں شامل ہواتھا۔ بھدرواہ پر راجہ محمد تیغ سنگھ کے وزیر لکھپت پڈیـار نے بھی حملہ کیـاتھا ۔اور چنبہ کے وزیر نتھو کے لشکر کو بسنوتہ اور گالو گڑھ کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی اور بھدرواہ کو فتح کرکے جلادیـاگیـاتھا ۔اسی کارنامہ کی بنا پر وزیر لکھپت کو بونجواہ کا علاقہ جاگیر مـیں دیـاگیـاتھا ۔ورنہ اس سے پیشتر وہاں مقامـی رانے راجہ بھدرواہ کی اطاعت کا جو اگلے مـیں ڈالے حکومت کیـاکرتے تھے ۔
روایـات کے گرداب: کشتواڑ کو کوئی کلہن نہیں ملا ۔اگر ملا بھی ہو تو اس کا کرنامہ محفوظ نہیں رہا۔ راج ترنگنی بھی شاعرانہ پروازِخیـال ،مبالغہ آرائی اور روایـات پرستی سے خالی نہیں ہے لیکن کشتواڑ کی تاریخ راجہ رائے سنگھ ۱۵۴۷ ء تک روایـات کے گرداب مـیں پھنسی رہی ۔ کہاوتوں ،قصوں اور بے سر و پاقصیدوں کے جھاڑ جھنکار مـیں چھپے ہوئے چنبیلی کے پھول مشکل سے ملتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق سنسکرت اور شاردا رسم الخط مـیںی کہنہ چوبی صندوق مـیں کاغذی کیڑوں کی نذ ر ہورہے ہیں ۔دھوئیں سے اٹے ہوئے ان چوبی صندوقوں یـاالماریوں کے مالکوں کو اس قدر علم کی بصیرت نہیں ہے کہ وہ اپنے خزانے کو دیکھیں کہ وہ اینٹوں اور پتھروں پر مشتمل ہیں یـا لعل و جواہرات سے مزین ہیں اور نہ ہی ظرف اتنا عالی ہے کہ اہل علم کو اُن سے راشناس کرائیں ۔بعض مخطوطے نظر سے گذرے جو مخصوص زاویہ نگاہ سے لکھے گئے ہیں ۔ جس راجہ نے مصنف یـا اس کے بزرگوں کو اپنی فیـاضی سے مطمئن اور مسرور کیـا ہے ۔اس کی مدح مـیں زمـین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں ۔اُسے کرن کی طرح دانی کہاگیـا ہے ۔ پنڈت دینا ناتھ جوتشی کے پاس ایک مخطوطہ شاردا رسم الخط مـیں ہے ۔اس مـیں مندرجہ ذیل عبارت مرقوم ہے:
’’وجے کا بیٹا بلبھدر ہوا ہے ، جس بلبھدر کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے بارہ ہاتھی دان مـیں دئے۔‘‘ کشتواڑ مـیں ہاتھی ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ آتاہی نہیں ہے ۔ آج سے صدیـاں پہلے راستے بے حد دشوار گذار تھے ، ان ایـام مـیںی ہاتھی کاآنا او ربھی ممکن نہ تھا ۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود تاریخ کشتواڑ مـیںتھی کا ذکر آتا ہے ۔ایک روایت ہے کہ راجہ سنگرام سنگھ کے عہد مـیں متا اور کلید کے درمـیان ایک دیو پیداہوا تھا جو ہاتھی کی شکل مـیں ظاہر ہوتا تھا اور ارد گرد کے دیہات مـیں جب موقع ملتای نہی انسان کو اپنا شکار بنا لیتا ۔ کہاجاتا ہے کہ چوگان (کشتواڑ کامرغ زار) مـیں اگر گیـارہ آدمـی چل رہے ہوتے تو ایک آدمـی خودبخود غائب ہوجاتا۔آخر راجہ نے ناگسین سے ایک بوڑھے ،تجربہ کار اور ماہر روحانیـات براہمن کو بلایـا جس نے اپنے علم کے زور سے دیو کو زندہ جلادیـااور انعام مـیں سنگرام بھاٹا کے مقام پر جاگیر حاصل کی ۔ سنگرام بھٹا اُسی براہمن کا آباد کیـاہوا موضع ہے ۔ دیو کے مار ے جانے کی خوشی مـیں بہادون یـااسوج مـیں چوگان مـیں کٹک یـاترا منعقد ہوتی تھی ۔ جس مـیں مقامـی بھانڈاپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے او رہاتھی کی شکل (Effigy) بناتے تھے ۔چوگان مـیں ایک پتھر بھی تھاجوزمـین مـیں گڑا ہوا تھا اور جو حصہ باہر تھا ،اس مـیں تھا ،اسے ہستی گنڈ یعنی ہاتھی باندھنے کی جگہ کہتے تھے ۔
گوردھن سر: کہاجاتا ہے کہ پُرانے وقتوں مـیں سنگھ پور سے ٹھاٹھری تک ایک لمبی چوڑی جھیل تھی ۔ یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ دریـائے چناب۔دریـائے مڑوہ اور کأشأ کوہل(چھاترونالہ) کی سطح اس قدر بلند ہوکہ ان سب کا پانی کشتواڑ کے اوپر سے ہوکر گذرتاہو۔ کشتواڑ کی سطح مرتفع کی موجودہ شکل نہ ہو بلکہ پانی کے نیچے ایک مـیدان ہو جب ہزاروں سال کے مسلسل عمل نے دریـاؤں کی گذرگاہوں کو گہرا کردیـاہو،کشتواڑ کی جھیل کے کنارے پانی کے زور سے یـاکسی زلزلہ کے سبب گر کرٹوٹ چکے ہوں اور تمام پانی نشیب مـیں چیرہاڑ ،آرسی ،تیل مچھی ،سونہ درمن، ہڑیـال اور شالہ مار کی طرف بہہ گیـا ہو اور خشکی برآمد ہوگئی ہو جس پر دیودار کے درختوں کا جنگل اُگ آیـاہو۔ جھیل کی جگہ رہتے رہتے صرف برائے نام پانی باقی رہ گیـاہے۔ جسے بعد مـیں گودن سر کہاگیـا اور آج تک کہاجاتاہے ۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جھیل کی روایـات کشمـیر کی تاریخ کی دیکھا دیکھی بنائی گئی ہو ۔وہاں جھیل کے پانی کو کشپ رشی نے نکالا اور کشمـیر کو آباد کیـا یہاں ہنگیت براہمن نے سب سے پہلی بستی بسائی۔ اصل مـیں علم تاریخ براہمنوں کے ہاتھ مـیں تھا۔وہ کشمـیر سے آئے تھے ورنہ آثار وقرائنی جھیل کا پتہ نہیں دیتے ہیں۔
مہاکالی کنڈ یـا مہاکال گڈھ: جب جھیل کاپانی خارج ہوگیـا اور صرف گودن سر کا چھوٹاسا تالاب رہ گیـا ۔تو عرصۂ دراز کے بعد کہیں سے ایک سادھو شری پال نامـی آنکلا۔ اس نے پُر سکون جگہ دیکھ کر تالاب کے پاس ہی اپنی دھونی رمائی اور یـاد الٰہی مـیں مصروف ہوگیـا۔ رفتہ رفتہ سادھو کے روحانی کمالات کا شہر ہ عام ہوا ۔اور لوگ اس سے مستفید ہونے کے لئے آنے لگے ۔ کچھ معتقد ایسے بھی تھے جو وہیں آباد ہوگئے اور اس نئی آبادی کانام ’’مہاکالی کنڈ‘‘ پڑا۔غالباً شری پال کالی کاپُجاری تھا۔اس کانام بھی معلوم نہ ہوسکا۔ شری پال لقب ہے کیونکہ چیتے اس کے پاس دیکھے گئے تھے ۔ پادری ہچی سن اور درگل نےشری پال کی آبادی یـا بستی کانام مہاکالی کندر رکھا ہے ۔ ہمارے خیـال مـیں یہ مہاکالی کنڈ ہے کیونکہ یہ تالاب کے کنارے واقعہ تھی اور تالاب کو کنڈ کہاجاتا ہے ۔ نئی بستی مـیں دس پندرہ سال کے بعد ہی اخلاقی بُرائیـاں پیدا ہوگئیں ۔ سادھو نے ناراض ہوکر بد دعا دی اور مہاکالی کنڈ تباہ ہوگیـا۔ خیـال یہی ہے کہ آبادیی وباکاشکار ہوکر مرکھپ گئی اور باقی ڈر کر بھاگ گئی ۔ سادھو جیسے پردۂ گمنامـی سے نکلا تھا اسی طرح لاپتہ ہوگیـا۔پوہی: پھر زمانہ نے ایک اور کروٹ لی۔ کشمـیر سے ہنگپت نام کاایک براہمن چرواہا بھیڑ بکریوں کا ریوڑ لیکر آیـا اور مڑپنیـار کے مـیٹھے اور ٹھنڈے پانی کے چشمے اور قریب کے سرسبز و شاداب جنگل اور جھاڑیوں کو دیکھ کر اپنے تینوں لڑکوں رام داس روگھناتھ داس اور سری داس کے ساتھ وہیں رہ پڑا۔اس کا خاندان بڑھا اور پوہی کاگاؤں آباد ہوا۔ژیر ہاڑ اور زیور: پوہی کی آبادی کے بعد کشمـیر سے یہاں چرواہے اور مسافر آتے جاتے رہے ۔ آہنگپت کے خاندان کی خوشحالی کے قصے کچھ قبیلوں نے جو کشمـیر کی سرحد پر آباد تھے اور راتھر اور گنائی کہلاتے تھے ۔سُنے اور ان کے مُنہ مـیں پانی بھر آیـا ۔ چنانچہ اُن دونوں قبیلوں نے مِل کر پوہی پر حملہ کیـا اور غالب آنے کے بعد آہنگپت کے خاندان سے ان کی زرخیز چراگاہیں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چھین لئے ۔نئے حملہ آوروں نے پوہی کی ڈھلانوں پر رہنا پسند نہیں کیـا کیونکہ وہ وادئ کشمـیر کے مـیدانوں سے آئے تھے ۔اس لئے پہلے پہل وہ سب ڈانبرناگ مـیں آباد ہوئے کیونکہ وہاں پانی بھی زیـادہ تھا اور کاشت کے لئے نسبتاً بہتراراضی دستیـاب ہوسکتی تھی ۔ راتھر اور گنائیوں نے اُس نئی بستی مـیں خوبانی کے بے شمار درخت کاشت کئے اور کچھ عرصہ بعد وہاں بہتات سے خوبانیـاں پیدا ہونے لگیں ۔ اس طرح اُس نئی بستی نام ژیر ہاڑ پڑا۔معلوم ہوتاہے کہ جب ان کی تعداد بڑھ گئی اور کشمـیر سے اور بھی قافلے آتے گئے نیز دونوں قبیلوں مـیں پہلی سی محبت اور دوستی برقرار نہ رہی تو اُنہوں نے نئی بستیـاں بسانے پر اتفاق کیـا ۔روتریـاراتھروں نے زیور کاگاؤں آباد کیـا اور گنائی موجودہ قصبۂ کشتواڑ کی جگہ جہاں جنگل تھا اُسے صاف کرنے کے بعد بس گئے۔روتر یـاراتھر،گنائی:یہ راٹھو اور گنائی قبیلے کشمـیر کے جنگجو قبیلے تھے ۔ راٹھور بگڑتے بگڑتے روتر یـا راتھر بن گیـا اور گُن وانی ،گنائی ہوگئے ۔حضرت شیخ یعقوب صرفیؔ ؒ جنہوں نے اکبر اعظم کو کشمـیر پر حملہ آور ہونے اور شعیہ چکوں کے ظلم و ستم سے اہل کشمـیر کو بچانے کی دعوت دی تھی ۔اسی گنائی قبیلے کے فرد تھے ۔چھوٹے موٹے حکمران: راتھر اور گنائی سطح مرتفئ کشتواڑِ خاص کے حکمران تھے ۔ موجودہ تحصیل کشتواڑ کے باقی علاقوں مـیں دوسرے لوگ حکمران تھے ۔عام طور پر ایک ایک گاؤں کا راجہ ہوتاتھا اور کہیں کہیں علاقے کا بھی ۔ یہ حکمران رانے کہلاتے تھے ۔پاڈر ، بونجواہ ، کنتواڑہ ، ناگسین اور سروڑ مـیں ’’رانا‘‘ خاندان کے لوگ حکومت کرتے تھے ۔ جن کا دائرہ اختیـار ان کی طاقت ، ہر دلعزیزی اور ذاتی شجاعت کی بنا پر گھٹتا بڑھتا رہتاتھا ۔ راناؤں کے علاوہ راٹھی لفظ بھی حکمرانی کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ یہ راٹھی بھی راٹھو ر یـا ٹھاکر ہوں گے ۔ ہرش کا پوتا بھکشا چرجب تخت و تاج کے لئے ۱۱۴۲ ء مـیں کوشش کررہاتھا تو اس کی مدد کشتواڑ کے دو ٹھاکرکررہے تھے ۔ راج ترنگنی مـیں چندر بھاگا کے ٹھاکروں کے متعلق کئی بار ذکر ہوا ہے ۔ درون اصل کشتواڑ مـیں مرکزی حکومت بہت بعد مـیں قائم ہوئی جس نے کشتواڑ کی ریـاست کو جنم دیـا۔بھوٹ نگر: ژیر ہاڑ، پوہی ،زیور اور کشتواڑ خاص کی خوشحالی اور اقتصادی اطمـینان کے قصے دو ردور تک پھیلے ہوں گے تبھی تو سورو (لداخ ، زانسکار) کا حکمران کھری سلطان حملہ آور ہوا اور ٹھاٹھری تک تمام علاقے پر قابض ہوگیـا ۔ کشتواڑ کانام بھوٹ نگر پڑا۔لداخیوں کو بھوٹ کہاجاتا ہے ۔اُس نسبت سے مقامـی آبادی نے کشتوار کی راجدھانی کو بھوٹوں کی کثرت کے سبب بھوٹ نگر پکارنا شروع کیـا ہو ورنہ ظاہر ہے کہ کھری سلطان اس نام کو خود کیسے تجویز کرتا ۔کھری سلطان ایک رعایـا پر ور اور انصاف پسند ، حکمران تھا ۔ کشتواڑ او راس کے علاقہ جات سے فائدہ اٹھانے کے بعد وہ پھر اپنے آبائی وطن واپس چلاگیـا ۔ کھری سلطان یـاتری سلطان بقول کے ۔ایم ،پانیکر لداخ کے صوبہ پورگ کے حکمران تھے ، جن کی راجدھانی کھرسی تھی ۔ یہ علاقہ تحصیل کشتواڑ کے مڑوہ واڑون کے متصل ہے ۔ لفظ سلطان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھا جبکہ سورو اور کھرسی کے سردار پندرھویں صدی مـیں مسلمان ہوئے تھے ۔دائر�ۂ اسلام مـیں آنےسے پہلے کھرسی کے سردار اپنے تئیں کھری گیـالپو کہلاتے تھے ۔دراصل جب بہت عرصہ بعد تاریخ کشتواڑی شخص نے مرتب کی تو اس نے اس وقت کے کھر سی حکمرانوں کو جو کھری سلطان کہلاتے تھے ، مدِ نظر رکھ کر آٹھویں یـا نویں صدی کے حکمران کو بھی کھری سلطان کے لقب سے موسوم کیـاہے ۔ تاریخ حشمت مـیں صفحہ ۶۹۸ پر درج ہے ۔ ٹھی محمد سلطان ۱۷۴۶ ء اپنے باپ کی وفات پر راجہ ہوا۔ وہ بڑا مدبر اور بہادر راجہ تھا ۔ اس نے اپنے ملک سے باہر نکل کر کشتوار کو فتح کیـا ۔ جہاں ٹھی سلطان کے نام کا شغرن آج تک موجود ہے۔‘‘ یہ بھی غلط ہے ۔ اٹھارھویں صدی مـیں کشتواڑ مـیں جو واقعات رونماہوئے وہ تاریخ مـیں درج ہیں ،ی سلطان کے حملہ کاذکر نہیں ہے اور خود حشمت اﷲ نے کشتواڑ کی تاریخ مـیں اٹھارھویں صدی مـیں ایسا کوئی حملہ بیـان نہیں کیـا ہے ۔پنج ساسی: کشتواڑ کی تجارت کشمـیر کے ساتھ بھی ہوئی تھی اورجنوب کے علاقہ جات جموں ، بسوہلی ، نورپور کانگڑہ وغیرہ کے ساتھ بھی ۔ذرایع آمدورفت مشکل تھے ۔ چوروں ، لٹیروں اور جنگلی درندوں کا خطرہ قدم قدم پر مسافروں کو پریشاں کرتاتھا ۔اُن ایـام مـیں سفر قافلے کی صورت مـیں دلیر، جنگجو اور باہمت لوگ ہی کرسکتے تھے ۔اس لئے وہی لوگ تجارت مـیں پیش پیش تھے جو اپنی حفاظت خود بھی کرلیتے تھے ۔ ایسا ہی تجارت پیشہ فرقہ پنج ساسی تھا۔ یہ پنجاب سے آکر کشتواڑ مـیں کاروبار کے تعلق مـیں آبادہوگیـا۔ وہ باہر سے کپڑے ، نمک ، گڑ ،آرائشی سامان وغیرہ کشتواڑ لاتے تھے اور یہاں سے ادویـات ، گھی ،زیرہ ، گچھیـاں ، راجماش، زعفران ،کمبل ،پٹو برآمد کرتے تھے چونکہ جنگجو تھے اس لئے ہتھیـار جسم پر سجا کر رکھتے تھے ۔ شروع شروع مـیں مقامـی آبادی کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ اور برادرانہ تھے لیکن جب وہ ہدری کے قریب آباد ہوگئے اور کھیتی باڑی کرنے لگے تو رفتہ رفتہ اُن کے تعلقات مقامـی آبادی بالخصوص راتھر اور گنائیوں کے ساتھ کشیدہ ہوگئے ۔راتھر اور گنائی اپنے آپ کو کشتواڑ کاحکمران طبقہ سمجھتے تھے اور غریب ہونے کے باوجود پنج ساسیوں پر رعب جماتے تھے ۔ پنج ساسی ترکی بہ ترکی جواب دیتے تھے اور اُن سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔ چونکہ وہ شہ زور اور فنونِ سپاہگری سے واقف تھے اس لئے راتھر اور گنائی ان کا کھلے مقابلے مـیں کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے ۔ ہاں اُنہوں نے کشتواڑ کے نام پر رشتہ داری اور دوستیکے ناطے مقامـی آبادی کا بڑا حصہ پنج ساسیوں کے خلاف ابھار دیـاتھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنج ساسی کھیتی باڑی کی طرف زیـادہ توجہ دینے لگے اور تجارت کشتواڑ سے باہر کے علاقوں سے کرتے رہے۔ کشتواڑ کے لوگوں کاایک حصہ ان کا دوست تھا۔ان سے بھی اور ان کے ذریعے دوسروں سے تجارت کرتے رہے ۔ آج پنج ساسی تند اور پلماڑ مـیں آباد ہیں ۔صدیـاں گذرنے کے باوجود اور مقامـی آبادی سے رشتہ ناطہ کرنے کے باوصف ان کا مخصوص رنگ اور ناک نقشہ کہہ رہاہے ۔
کشتواٹ: گنائیوں نے موجودہ قصبہ کو آباد کیـا تھا ۔ راج ترنگنی مـیں جب بھی ذکر آیـا ہے ۔ کشتواٹ نام دیـاگیـا ہے ۔ہچی سن نے اس کا مطلب باغِ دشت بتایـا ہے اور اسے سنسکرت کامرکب قرار دیـاہے جو بجا ہے ۔ تاریخ بہارستان شاہی مـیں جو چک عہد کی تاریخ ہے کشتواڑکو کاٹھوار کہاگیـا ہے ۔ کشتواڑ کے معانی بھی مختلف بیـان کئے گئے ہیں ۔ بقول سید نجم الدین مؤلفّ تاریخ کشتواڑ ، کشٹہ خوبانی کے چھلکے کو کہتے ہیں اور واڑ جگہ کو ۔دوسرے معنی ہیں دُکھ کی جگہ ۔ یہی معنی زیـادہ مستعمل ہیں۔
کشٹ رنج آمدبہ ہندی جائے وار
جائے رنج آمد بمعنے کشٹوار
ہرکہ ساکن مے شود رر کشتوار
کردباید ایں دوچیزش اختیـار
روزداردنفس رادرسوزِ جوع
شب ز سرما با پدش ترک ہجوع
یعنی ہندی مـیں کشٹ کے معنی رنج ہیں اور دار ،جگہ کو کہتے ہیں ۔اس لئے کشتواڑ کے معنی ہوئے دُکھ کی جگہ ۔جوکوئی کشتواڑ مـیں رہ جاتا ہے وہ دوباتیں اختیـار کرتاہے ۔ دن کے وقت بھوک کی آگ مـیں جلتا ہے اور رات کو سردی اُسے سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ اسی مفہوم کو ایسے بھی بیـان کیـاگیـا ہے۔
کشتواڑ ، کشٹ کا بھانڈا دن کو بھوکا رات کو ٹھانڈا
جوکوئی آئے ،جب وہ جائے وہ ہے گوڑ گاؤں کا جھانڈا۔اج ترنگنی کا مترجم سٹائن جلد دو م کے صفحہ ۴۳۱ پر لکھتا ہے ۔
تاریخ حسن کے جلد اول کے صفحہ ۲۴۳ پر یہ عبارت کشتواڑ کے بارہ مـیں درج ہے ۔
’’کشتواڑ ایک درہ کے درمـیان ہے ۔ کشمـیر سے جنوب کی طرف مڑوہ کے راستے ۱۲۰ مـیل کی مسافت پر ہے ۔سطح سمندر سے اس کی بلندی ۵۴۵۰ فٹ ہے ۔ وہاں کی آب وہوا اچھی ہے ۔وہاں کے درخت اور پھل مرغوب ہیں ۔ برف قلیل پڑتی ہے ۔فوراً پگھل جاتی ہے ۔ وہاں کے اصلی باشندے ٹھکر اور گدی قوم سے ہیں ۔اُس جگہ بہت سے کشمـیری بھی شال بافی کاکام کرتے ہیں ۔اس سے پہلے وہاں کی عورتیں سحر اور جادوگری مـیں مشہور تھیں ۔انہیں’’ڈین‘‘ کہتے تھے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے ان کا مناسب تدارک کیـا اور ان کا عمل معدوم ہوگیـا ۔اُس جگہ کے راجہ راجپوت قوم سے تھے اور خودمختیـارانہ حکومت کرتے تھے ۔۹۰۰ ہجری مـیں سید شاہ فرید ؒ نے جو روشن دل درویش تھے ۔راج�ۂ کشتواڑ کو مسلمان کرکے مرید بنالیـا۔اور عالمگیر کے عہد مـیں وہ راجہ سعادت یـار خاں کے لقب سے ملقب ہوا۔آخری راجہ تیغ سنگھ جو سیف خان کے نام سے بھی مشہور تھا وہاں کی حکومت کی مسند پر بیٹھا۔وزیر لکھپت رائے جو راجہ کامقرب اور خاص الخاص محرم تھاکسی وجہ سے اُس سے ناراض ہوگیـا۔مہاراجہ گلاب سنگھ کو تسخیر کشتواڑ کی ترغیب و تحریص دی ۔حتےٰ کہ مہاراجہ نے ۱۸۷۷ بکرمـی مـیں اس کی تسخیر کے لئے فوجِ جرار متعین کی ۔وہاں کے راجہ نے تاب مقابلہ نہ پاکر لاہور کی طرف فرار اختیـار کیـا اور مہاراجہ گلاب سنگھ نے علاقۂ کشتواڑ اور بھدرواہ پر قبضہ و اقتدار حاصل کیـا۔‘‘
’’اب قصبہ مـیں سو کے قریب چھوٹے گھر یـاجھونپڑے ہیں ۔ان کی چھتیں اس طرح کی نہیں جس طرح کشمـیر مـیں ہوتی ہیں بلکہ چوڑی اور عام طور پر ایک منزلہ ۔ان کے صحنوں مـیں مـیوہ دار درخت لگے ہوئے ہیں ۔بازار مـیں پندرہ سے بیس تک دوکانیں شال تیـار کرنے کی ہیں۔یہاں موٹے کمبل بھی تیـار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ دریـائے چناب ، کشمـیر جاتے ہوئے بڑا گہرا دکھائی دیتا ہے ۔اس پر جھُولا پل ہے جو صرف ۲۵ گز لمباہے ۔
پُرانے زمانے مـیں جب راجوں کی حکومت تھی ۔ کشتواڑ ہر لحاظ سے خود کفیل تھا ۔شالبافی کی کھڈیوں کا ہونا تعجب خیز نہیں ہے کیونکہ یہ صنعت بسوہلی اور بھدرواہ مـیں بھی پائی جاتی تھی ۔ رفتہ رفتہ قدردان اور گاہک نہ ملنے پر اور کشمـیر کے مقابلہ مـیں سستے نہ ہونے کے سبب شالوں کا کاروبار بند ہوگیـا اور ان کی جگہ باریک، نفیس اور دلکش کمبلوں کی صنعت نے لے لی ۔رہا ڈینوں کا معاملہ وہ عہدِ جہالت کی یـاد گار ہے اور خود شکسپئیر کے عہد مـیں انگلستان بھی اس بیماری کاشکار تھا ۔اس کا ڈرامہ ’’ تین ڈینیں اور بادشاہ لایر‘‘ مشہور ہے ۔ عام تعلیم اور نور تہذیب پھیلنے کے سبب اب کشتواڑ مـیں بھی کالے جادو کے اثرات بڑی حد تک کم ہوچکے ہیں ۔ ایک تحقیق کی رو سے کشتواڑ کی سطح سمندر سے بلندی ۵۳۰۰ فٹ ہے ۔
کشتواڑ کاطولِ بلد شری ۴۶ء۷۵ درجہ ہے ۔اور عرض بلد۱۸ء۳۳ درجے ہے ۔مجموعی حیثیت مـیں کشتواڑ کی آبو ہوا سرد ہے ۔ مون سون ہوائیں یہاں تک پہنچتے پہنچتے اپنی نمـی بڑی حد تک کھو بیٹھتی ہیں ۔دوسرے سطح مرتفع کے ساتھ جانب شمال کوئی اونچی پہاڑی نہیں ۔اس لئے ہوائیں آکر اوپر سے گذر جاتی ہیں ۔ بارش اسی وقت برستی ہے جبکہ وہ عالمگیر ہو ۔ مقامـی بارش بہت کم ہوتی ہے ۔پیداوار مـیں بیشتر مکی پھر جو اور گندم ،دالیں ،کودرا ، کنگنی وغیرہ شامل ہیں ۔چاول بہت کم پیدا ہوتے ہیں ۔بیشتر علاقہ بارانی ہے ۔کشتواڑی اقتصادی لحاظ سے غریب ہیں کیونکہ کاشتکاری اور جنگلاتی فرموں مـیں چرائی ،ڈھلائی اور بہائی(مہان) کے علاوہ کوئی قابل ذکر صنعت نہیں ہے ۔ ویسے حسبِ ضرورت دیہاتی اپنا موٹا چھوٹا کپڑا خود سی لیتے ہیں ۔ کمبل کشتواڑ اور پاڈر مـیں اعلےٰ درجے کے بنتے ہیں ۔ کشتواڑمـیں مختلف فرقوں کے مابین بھائی چارہ ، باہمـی احترام او ردوستی قائم ہے ۔غریبی کے باوجود محبت اور اتفاق فراواں ہیں۔
اوجین: مالوہ کا مشہور تاریخی شہر ہے اس کے بارہ مـیں آج بھی کشتواڑ کے گوڑیے براہمنوں مـیں مشہور ہے ۔
اوجین نگری سپرا تیرۃ، ارس پڑس کے گھاتا
کاتیـانی سوتر،متندنی شاکھا، جانکادیوی ماتا
تاریخ ہندوستان مولفۂ مولوی زکاء اﷲ کی جلد پنجم کے صفحہ ۱۰۱۱ پر تحریر ہے ۔
’’اوجین ایک بزرگ شہر ، ساحل سپرا پر ہے ۔ہندوؤں کی بڑی پرستش گاہ ہے۔‘‘
بکرم بھوج
بکرم بھوج دُج تھے بھاری امـیر بڑے بڑے مایـادھاری
تمرناشک مـیں لکھاہے کہ بکرم آٹھ ہوئے ہیں ۔ان مـیں سے بیشتر کے ساتھ افسانے منسوب ہیں اور خود اُن کا وجود بھی افسانوی حیثیت رکھتاہے جس بکرم یـابکرما جیت نے بکرمـی سموات جاری کیـا ہے ، تاریخ مـیں اس کی حیثیت بھی واضح نہیں ہے ،عام طور پر چندر گپت بکرما جیت جس کا عہد حکومت ۴۱۴۔۳۷۵ ء ہے اور جو گپتا خاندان کا نامور حکمران ہوا ہے وہ چند گپت کہاجاتا ہے جس کے نورتنوں مـیں کالیداس بھی شامل تھا۔
آر۔سی ۔موزمدار ،’قدیم ہند‘‘ کے صفحہ ۲۹۸ پر لکھتے ہیں۔ ’’ بکرم سموات اور مہاراجہ بکرما دتیہ کے عہدِ حکومت کا تعین ہندوستان کی تاریخ کے ناقابل حل مسایل سمجھے جانے چاہئیں۔
دراصل بکرما جیت ایک لقب ہے جو تاریخ قدیم کے نامور حکمرانوں نے اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لئے اختیـار کیـاتھا۔ گپت خاندان مـیں چندر گپت بکرما جیت کے علاوہ اس کا پوتا پوروگپتا ۷۳۔۴۶۷ ء بھی اپنے آپ کو وکرم دت کہلاتاتھا او رایسا اس کے عہد کے سکول سے ظاہر ہے ۔
پروفیسر ایم ، مُلر اپنی تاریخ ہند کے صفحہ ۲۸۹ پر سلادت یـا سلادتیہ کا عہدِ حکومت ۶۰۰۔۵۰۰ تک مقرر کرتے ہیں ۔تواریخ گلدستہ کشمـیر حصہ دوم کے صفحہ ۴۲ پر مرقوم ہے ۔’’ ایک بڑا بکرم ۵۰۰ اور ۶۰۰ ء کے درمـیان مـیں ہوا ہے جس نے ماتر گپت کو کشمـیر بھیجا اور پرورسین نے اس کے بیٹے شیلا دت سے سنگھاسن ۳۳ پتلیوں والا چھین کر کشمـیر مـیں پہنچایـا۔‘‘
تاریخ کشتواڑ مـیں بکرما جیت کے والد کانام گندھرب سین دیـا ہوا ہے ۔ضمـیمہ تواریخ گلدستہ کشمـیر کے حصہ سویم کے صفحہ ۵۸ پر حسب ذیل عبارت درج ہے ۔
نمبر شمار نام فرمان روا ولدیت سال جلوس مقام سلطنت عہد حکومت
۷۱ بکرما جیت والی اوجین گندھرب سین ۳۸۶ ک اوجین ۹۳ سال
۳۱۱۰ بدھشٹری
۴۲ ب
اس سے طاہر ہوتاہے کہ کاہن پال کے بزرگ محض زیبِ داستان کے لئے نہیں بڑھائے گئےتھے بلکہ ان کی کچھ حقیقت بھی ہے۔
پرمار یـا پوار: تاریخ حسن حصہ دوم کے صفحہ ۴۷ پر تحریر ہے :۔
’’مؤرخان ہندمے نگارند کہ راجہ بکرما جیت از قوم پوعار بود ودر اوصافِ حمـیدہ واطوارِ پسندیدہ اوقصص وحکایـات بسیـار درتواریخ ہنود بطور افسانہ مذکور ومشہور است۔‘‘
یعنی ہند کے تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ راجہ بکرما جیت پوا ر قوم کا تھا ۔اس کے اخلاق بہت اچھے تھے ۔اس کے بارہ مـیں ہندوؤں کی تواریخ مـیں بہت سے قصے کہانیـاں مشہور ہیں ۔ پوار کے بارہ مـیں ہند قدیم(Ancient India) کے صفحات ۱۲۔۳۱۱مـیں آر سی موزمدار لکھتے ہیں۔
’’ اُن کے مغرب مـیں مولوہ کے حکمران پر مارتھے ۔ بعد مـیں پرماروں کو پوار راجپوت کہاجانے لگا اور ان کے بارہ مـیں اگنی کل راجپوتوں کی کہانی بیـان کی گئی ۔لیکن پرانے ریکارڈ کے مطابق پرمار حکمران راشٹرکوٹ خاندان سے پیداہوئے ۔اس کاامکان بھی ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ کرشنا راجہ ،پرمار خاندان کا بانی ، پہلے پہل مالوہ کا گورنر ، شہنشاہ (راشٹر کوٹ ) گوبند iiiکی جانب سے مقرر ہوا تھا جبکہ شہنشاہ نے اس صوبہ کو ناگ بھٹ دوم سے فتح کیـاتھا۔
کاہن پال کا عہد: اب دیکھنا یہ ہے کہ کاہن پال صدی مـیں کشتواڑ پر قابض ہوا۔ کاہن پال بکرما جیت کی پانچویں پشت مـیں ہوا ہے ۔اب اگر ہر شخص کی اوسط عمر ۴۰ برس قرار دے دی جائے تو بھی بکرما جیت اور کاہن پال مـیں دو سو برس کا فرق ہونا چاہئیے ۔اس طرح کاہن پال کا زمانہ آٹھویں کااختتام یـا نویں صدی کاآغاز قرارپاتاہے ۔ بکرما جیت ۵۵۰ ء سے قریب اوجین پر حکومت کرتاتھا ۔دو سو برس ملاکر ۷۵۰ ء کاہن پال کا عہد ہوسکتا ہے چونکہ ہر نسل کے لئے صرف ۴۰ سال فرض کئے گئے ہیں ۔اس لئے اوسط بڑھ بھی سکتی ہے بجائے ۷۵۰ ء کے کاہن پال کا دور ۸۰۰ یـا ۸۱۰ ء ہوسکتا ہے۔
’’پہلے اکثر اُن دنوں مـیں اوجین ہی مـیں رہاکرتے تھے اور اوجین ہی سے آکر ادھر آباد ہوگئے۔‘‘
راجہ کاہن پال اوربکرما جیت کے درمـیان دو سو سال کا فاصلہ ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس درمـیانی عرصے کا بڑا حصہ راجاؤں کے خاندان نے اوجین ہی مـیں گذارا جب خانہ جنگی ، باہمـی آویزش اور پھوٹ کے سبب خاندان کاایک حصہ قسمت آزمانے کے لئے پنجاب اور کشمـیر کے پہاڑوں کی طرف نکل پڑا ۔ اوجین سے نکلنے والا راجہ حشمت اﷲ خان نے کاہن پال ہی کو ظاہر کیـا ہے ۔’’ مانک پال کا راج پہلے کاہن پال کو تکالیف و مصائب مـیں مبتلا ہوناپڑا۔ ان سے اپنی جان بچانے کی خاطر کاہن پال کو اپنے باپ دادا کا ملک چھوڑنا پڑا۔‘‘ تاریخ حشمت صفحہ ۱۴۰ کاہن پال کے خاندان مـیں۔
اکتیسواں راجہ رائے سنگھ ۱۵۴۷ ء مـیں کشتواڑ کی گدی پر بیٹھا۔ اس راجہ کے بعد واقعات سال اور تاریخ و سن کے ساتھ بیـان ہوئے ہیں ۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کاہن پال ۸۱۰ ء مـیں کشتواڑ پر قابض ہو ا او راس کے بعد کے راجاؤں کو رائے سنگھ کی مسند نشینی تک ۲۴ سال اوسطاً ہر راجہ کو ایـام راجگی کے طور پر تفویض کریں تو کاہن پال کا عہد حکومت ۸۱۰ ء متعین ہوجاتا ہے ۔علاوہ ازیں کشمـیر کے حکمران راجہ کلشدیو ۸۸۔۱۰۸۷ ء نے پہاڑی راجاؤں کاجو دربار منعقد کیـاتھا اور جس مـیں کشتواڑ کا اوتم راجہ بھی شامل ہوا تھا ۔کاہن پال سے کلش دیو تک کے عہد مـیں آٹھ راجے گدی نشین ہوئے تھے اور اس وقت کشتواڑ کا فرنا روا’’اودت راجہ‘‘ تھا جسے اوتم راجہ کہاگیـا ہے ۔اوتم راجہ درون اصل لقب ہے ۔اس لقب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشتواڑ مـیں اور بھی چھوٹے چھوٹے راجہ تھے لیکن کشتواڑ خاص کا راجہ بڑا راجہ تھا اور اُسے ہی کلشدیو کے دربار مـیں شرکت کی دعوت دی گئی تھی او راس طرح ان آٹھ راجاؤں کا عہدِ حکومت اوسطاً ۳۵ سال بنتا ہے۔ جو مناسب ہے ۔بہر حال نویں صد ی مـیں دس بیس سال ادھر یـا اودھر کاہن پال کی درآمد کاعہد مقرر کیـاجاسکتا ہے ۔
کاہن پال کے حملے کے وقت کشتواڑ کی حالت: قبل ازیں بیـان کیـا جا چکاہے کہ کشتواڑ خاص دو حصوں مـیں بٹا ہواتھا ۔ایک طرف راتھر اور گنائی تھے جو تعداد مـیں زیـادہ تھے اور دوسری طرف پنج ساسی تھے جن کے ہاتھ مـیں فوجی قوت تھی اور چونکہ لاٹھی ان کے پاس تھی ۔اس لئے بظاہر کشتواڑ کاکنٹرول ان کے قبضے مـیں تھا ۔ انہیں شکست دینا کشتواڑ کے مالکوں کو شکست دینے کے مترادف تھا ۔اس لئے کاہن پال نے کاندنی مـیں بیٹھ کر صرف پنج ساسیوں سے سیـاسی قوت لینے کا منصوبہ تیـار کیـا ۔کیونکہ کشتواڑ خاص پر قابض ہونے کامطلب ریـاست کشتواڑ کی مملکت پر قبضہ کرنے کے برابر تھا۔
کاہن پال کا منصوبہ: کاہن پال ایک ہوشیـار اور معاملہ فہم حملہ آور کی طرح کاندنی سے کشتواڑ پر کھلم کھلا حملہ نہیں کرسکتاتھا کیونکہ نئے ملک کے جغرافیـائی حالات ، فوجی طاقت او ررعایـا کی راج پرستی کے جذبہ کی پختگی یـا کمزوری سے واقف نہ تھا ۔علاوہ ازیں اس کی اپنی فوجی قوت محدود تھی ۔اگر وہ کمزور نہ ہوتا تو امرناتھ جی کی یـاترا پر جانے کاپروپیگنڈ ا نہ کرتااو رچُھپ کر حملہ کرنے کا منصوبہ نہ بناتا۔
اس نےی پنج ساسی عورت کو بھاری رشوت دے کر اپنے ساتھ گانٹھ لیـا اور اس نے پنج ساسیوں کے سب حالات معلوم کرلئے۔ راجہ کو بتایـاگیـا کہ پنج ساسی ہر وقت مسلح رہتے ہیں ۔صرف بھاگن کے مہینے کی خاص تاریخ کو وہ چشمہ ھُدری پر جشن منانے اور پوجا پاٹ کرنے کے لئے ہتھیـاروں کے بغیر جمع ہوتے ہیں ۔ کاہن پال خفیہ تیـاریـاں کرتارہا اور مقررہ تاریخ سے پہلے شام کو اندھیرے مـیں کاندنی سے روانہ ہو ا۔شالہ مار سے رات کو دیر سے چلا اور چشمہ ھُدری کے پاس چُھپ کر بیٹھ گیـا ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس وقت ہدری چشمے کے جنوب مـیں خرشوکاجنگل ہوگا اور وہ بھی گھنا جنگل جس کے تاریک سائے مـیں راجہ او راس کے ہمراہی چھپ کر بیٹھے ہوں گے اور پھر اُس رات برف باری بھی ہوئی اس لئے درختوں اور جھاڑیوں کی آڑ مـیں حملہ آور چھپ گئے ہوں گے ۔اس زمانے مـیں لوگ توہم پرست تھے اس لئے شام کے بعد ہی مکانوں کے دروازے بند کرکے خانہ نشین ہوجاتے تھے او راس سبب سے راجہ اور اس کے ہمراہیوںکی آمد کاکسی کو پتہ نہ چلاہوگا۔
کاہن پال کی فتوحات اور حکمت عملی: ۔ اس نے کشتواڑاور منڈل مـیں اپنی حکومت مضبوط کی ۔ راجگی کاخٰون اس کی رگوں مـیں دوڑ رہاتھا ۔ حکومت کے طور طریقے جانتاتھا ۔مقامـی آبادی بالخصوص راتھر اور گنائیوں سے حُسن سلوک سے پیش آیـا۔وہ لوگ پنج ساسیوں کے ستائے ہوئے تھے ۔ راجہ کی مہربانی اور عنایت سے خوش ہوئے اور اس کے مطیع بن گئے ۔راجہ نے اپنے ساتھیوں کو انعام و اکرام اور جاگیرات سے نوازااور انہیں مقامـی آبادی سے گھل مل جانے اور قرابت داری کرنے کی ہدایت کی ۔جب کاہن پال نے دیکھا کہ کشتواڑ مـیں اس کے قدم مضبوطی سے جم گئے ہیں او راس کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔اس نے اپنی مملکت کی حدود کو وسیع کرنے کی طرف دھیـان دیـا ۔وہ ایک مضبوط فوج لیکر نکلا اور کاندنی سے سی گھٹ کے راستے کونتواڑہ کے راٹھیوں پر حملہ آور ہوا ۔وہاں کے راناؤں نے مقابلہ کیـا ۔لیکن کاہن پال کی چالوں اور زبردست طاقت کے سامنے انھیں جھکنا پڑا اور طوقِ اطاعت گلے مـیں ڈالنا پڑا۔ کونتواڑہ سے ٹھاکرائی جاکر وہاں کے زمـینداروں کو اپنا مطیع بنایـا اور ٹھاکرائی سے اوڈیل کے تمام علاقے پر اپنا پرچم لہراتا ہوا بھنڈار کوٹ کے راستے کشتواڑ واپس آیـا ۔ فتوحات کے سبب راجہ کیجاگیر کے ایک مقام پر اپنے نام پر ایک گاؤں آباد کیـا اور خود بھی وہاں رہنے لگا ۔اُس گاؤں کو آج کل متا کہتے ہیں ۔دوسرے بیٹے دیو سین نے دیکھا کہ وہ کیوں پیچھے رہے ۔چنانچہ وہ کچھ فوج لیکر دچھن اور مڑوہ گیـا اور ان علاقوں پر قابض ہوگیـا ۔اس طرح تینوں بھائی اپنی اپنی جگہ مطمئن ہوکر رہنے لگے اور جس خانہ جنگی کا نمونہ ان کے بزرگ اوجین مـیں دیکھ چکے تھے اس سے بچ گئے ۔دیو سین کے بارے مـیں بھی مشہور ہے کہ ایک بار بھائی سے ملنے مڑواہ سے آیـا ۔یہاں بڑے بھائی مہمان نوازی کالطف اٹھارہاتھا کہ دھندراٹھ اور ہدار مـیں بعض زمـینداروں نے سرکاری کارندوں کے ساتھ کچھ زیـادتی کی ۔دیو سین خود فوج لیکر گیـا اور ان علاقوں کو فتح کرکے اور اپنے بھائی کا جھنڈا لہر ا کر واپس آگیـا ۔ پھر مڑوہ اپنی جاگیر پر چلاگیـا۔مہاسین: گندھرب سین کے بعد اس کا بیٹا مہاسین گدی نشین ہوا ۔ اس کے عہد حکومت مـیں امن و امان رہا۔کشتواڑ خوشحال او رآباد تھا ۔راجہ مہاسین نے عیش وعشرت کی زندگی گذاری اور لمبے عرصے تک حکومت کرنے کے بعد ۸۰ برس کی عمر مـیں عدم کو سُدھارا۔مہاسین کے بعد رام سین ، کام سین ، مدن سین ، برہم سین راجے ہوئے لیکن ان کے دور کاکوئی خاص واقعہ قابل ذکر نہیں ہے ۔ صرف برہم سین بڑاعالم و فاضل اور شاعر تھا ۔ سنسکر ت مـیں مہارت کامل رکھتا تھااور دربار کے علما کو علمـی بحث مـیں عاجز کردیـاکرتاتھا۔اودت دیو: یہ وہی راجہ ہے جسے راجہ کلش دیونے پہاڑی راجاؤں کے ساتھ اپنے دربار مـیں کشمـیر بلایـاتھا اور جس کاذکر راج ترنگنی مـیں اوتم راجہ کے لقب سے کیـاگیـا ہے ۔یہ دربار ۸۸۔۱۰۸۷ ء مـیں منعقد ہواتھا۔اس راجہ کے بعد کشتواڑ کی گدی پر چودہ راجے ایسے بیٹھے جن کے نام کے ساتھ دیو لاحقہ لگاہوا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راجاؤں نے اپنے نام کے ساتھ لاحقے وقت کے فیشن کے طور پر لگالئے تھے ۔ مثلاً کاہن پال سے پہلے چار راجے ایسے ہوئے ہیں جو اپنے نام کے ساتھ پال لاحقہ رکھتے تھے ۔ جیسے ہری پال ،دمانگ پال ، مانک پال وغیرہ ،کاہن پال کے بعد جس قدرے راجے اودت دیو تک گدی نشین ہوئے وہ اپنے نام کے ساتھ سین لکھتے تھے ۔ تیسواں راجہ سنگرام سنگھ ہوا ہے جس نے سب سے پہلے اپنےنام کے ساتھ سنگھ کا لاحقہ چسپان کیـا او راس کے بعد آنے والے تمام راجاؤں نے سنگھ ہی کو اپنے نام کاآخری جزو بنایـا۔راجہ اودت دیو کے بعد پیتادیو یـا پرتھی دیو راجہ ہوا ۔اس کاایک نام پرتھو دیو بھی ہے ۔اس کے عہد مـیں ناگسین او رڈول کے مابین پہاڑ پر(ڈول دھار) ایک دیو ظاہر ہوا ۔جس نے مسافروں کے لئے چلنا دوبھر کردیـاتھا۔ راجہ نے اُسے حکمت عملی سے مروادیـا۔خیـال یہی ہے کہ کوئی ڈاکو یـا جابرشخص ہوگا جو عوام کو لوٹتا ہوگا ۔اس کے بعد گنگا دیو راج گدی پر بیٹھا۔ اس راجہ نے کشتواڑ کے مشرق کی جانب اپنی توجہ مبذول کی ۔اس نے پُلر اور ناگسین کے علاقوں کو فتح کرکے سب سے پہلی بار کشتواڑ کی مرکزی حکومت کے ساتھ انہیں وابستہ کیـا۔گنگا دیو کے بعد یکے بعد دیگر ے گوڑ دیو ، سنگھدیو ، رگھودیو، آنند دیو ، اوتار دیو اور بھاگ دیو نے مسند راجگی کو زینت بخشی لیکن ان کے خاص کارنامے نہیں ہیں ۔اس لئے تاریخ مـیں ان کے صرف نام محفوظ ہیں ۔رائے دیو: اس راجہ کا وزیر منگل رائے تھا ۔اس راجہ نے پاڈر پر حملہ کیـا او رجاڑ کدیل تک کا علاقہ فتح کر لیـا ۔ راجہ پاڈر سے چوبیس ہزار روپے نقب اور ہزاروں کی تعداد مـیں بھیڑ بکری ، چنور (سُراگائے) اور گائیں لایـا۔ پاڈر پر یہ دوسرا حملہ تھا۔ اس سے پہلے مہا سین کے ایک بیٹے نے پیـاس تک کا علاقہ پاڈر کے راناؤں سے چھین کر ریـاست کشتواڑ مـیں شامل کرلیـاتھا ۔راجہ رائے دیو بڑا لالچی اور جابر حکمران تھا ۔اس کی زبان درازی اور ستمگری سے تنگ آکر راتھر، گنائی اور پنج ساسی جن کی اب کچھ تعداد ہوگئی تھی ۔آپس مـیں مل گئے تینوں فرقوں نے ملکر سازش کی اور ایک اندھیری رات مـیں بغاوت کردی ۔ راجہ رائے دیو بڑی مشکل سے اپنی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کی جان بچا کر بھاگا۔ بھنڈار کوٹ اور سی گھٹ پر باغیوں نے پہلے ہی پہرے بٹھارکھے تھے تاکہ جونہی راجہ اُس راہ سے گذرنے لگے تو اُسے پکڑ کر کشتواڑ لایـاجائے ۔راجہ کو اس سکیم کا بھی علم ہوگیـاتھا ۔اس لئے شمال اور جنوب کی طرگ بھاگنے کے بجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[تاریخ۔۔۔History of Kishtwar | Urdusfhaat سپرا ۵۰۰]
نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Sat, 26 Jan 2019 03:25:00 +0000